یادِ رفتگاں حافظ حسین اَزہر حافظ عبد اللہ حسین روپڑیؒ کا سانحۂ ارتحال ۴/ اپریل ۲۰۱۰ء بروزاتوار بوقت۹ بجے صبح شیخ التفسیر حافظ محمد حسین امرتسری روپڑیؒ کے بڑے بیٹے حافظ عبد اللہ حسین روپڑیؒ ۷۷ برس کی عمر میں کراچی میں انتقال کر گئے جن کی نمازِ جنازہ ان کے بہنوئی پروفیسر حافظ ثناء اللہ خاں نے روپڑی خاندان کے زیر اہتمام ڈیفنس کالونی، کراچی کی جامع مسجد عمر بن عبدالعزیز میں اسی روز بعد نمازِ مغرب پڑھائی اور اُنہیں نئی تعمیر کردہ کالونی ’گلشن معمار‘ میں ۱۰بجے رات سپردِ خاک کر دیا گیا۔ اِنا ﷲ وانا الیہ راجعون! بر صغیر پاک وہند میں جن خاندانوں کو ان کی دینی، علمی اور تبلیغی خدمات کے باعث شہرت دوام ملی، ان میں غزنوی، لکھوی اور روپڑی خاندان سر فہرست ہیں ۔ حافظ عبد اللہ محدث روپڑیؒ او رشیخ التفسیر حافظ محمد حسین روپڑیؒ کا شمار اس خاندان کے اکابر علماء اساتذہ میں ہوتا ہے۔ اس خا ندان کے دیگر مشاہیر انہی دو شخصیتوں کے شاگرد ہیں ، جن میں سے ان دونوں کے بھتیجے حافظ محمد اسماعیل روپڑیؒ اور حافظ عبدالقادر روپڑیؒ پورے برصغیر میں ایک عرصہ شمس و قمر تاباں بن کر چمکتے رہے۔ اب یہ تمام حضرات گارڈن ٹاؤن لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں ۔ ع خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را حافظ عبد اللہ محدث روپڑیؒ او ر حافظ محمد حسین روپڑیؒ کی علمی اور اصلاحی خدمات مسلک اہل حدیث کا ایک روشن باب ہیں اور وہ زندگی بھر سلفی مکتب ِفکر کی تحریک کے نقوش نمایاں کرتے رہے۔ حافظ محمد حسین روپڑیؒ کی عوام میں زیادہ شہرت نہ ہوسکی جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ایک تو وہ خالص علمی مزاج رکھتے تھے۔ اگرچہ علمی مجلسوں اور مناظروں میں گاہے شریک ہوتے، لیکن دیگر تدریسی اور کاروباری مصروفیات کی وجہ سے عوامی جلسوں میں نہ جاتے تھے۔ کیونکہ وہ نہ صرف معاشی اعتبار سے خود کفیل ہو کر تعلیمی اور تحقیقی کام کرنا چاہتے تھے بلکہ اپنے |