شاگردوں اور مقتدیوں میں تحریک بھی چلایا کرتے تھے کہ اگر وہ دینی کام کو مؤثر بنانا چاہتے ہیں تو اپنے لئے معاش کا الگ انتظام کریں ۔ اُن کی اس سوچ کا پس منظر یہ تھا کہ برطانوی سامراج کے برصغیر پر تسلط کے بعد مسلمانوں کو جن مشکلات کا سامناکرنا پڑا، ان میں ایک بڑی مصیبت مسلمانوں کی ابتر معاشی حالت تھی۔ برطانوی سامراج بخوبی جانتا تھا کہ مسلمان اپنے جذبۂ جہاد کی بنا پر پوری طرح زیر نگیں نہیں ہوسکتے، اس لیے اُنہیں معاشی طور پر مفلوج کرکے ہی غیر مؤثر بنایاجا سکتاہے۔ چنانچہ سامراج نے پہلے ۱۸۳۸ء میں تمام مسلم اوقاف قبضے میں لے کر مسلمانوں کے روایتی تعلیم و تربیت کے ادارو ں کی کمر توڑنے کی کوشش کی، بعد ازاں تقریباً ہزار سال تک برصغیر پاک وہند میں مسلمانوں کے زیر نگیں رہنے والے ہند و اور دیگر مذاہب والوں کو بالا دستی دینے کی سازشیں کرتا رہا جن میں سرکاری ملازمتوں سے خاص طور پر مسلمانوں کو محروم رکھ کر دوسروں کو زیادہ سے زیادہ نوازا جاتا بلکہ مسلمانوں کی دینی وروایتی تعلیم کے فضلا کواس حد تک نظر انداز کیا جاتا رہا کہ دینی حلقوں کے تعلیم یافتہ حضرات کو خواندہ بھی شمار نہ کیا جاتا جب تک کہ وہ سرکاری امتحانات ’مولوی فاضل‘ وغیرہ پاس نہ کر لیں ۔ اپنی خودداری کی بنا پر حافظ محمد حسین روپڑیؒ نے مولوی فاضل کا امتحان بھی امتیازی حیثیت سے پاس کیا اور معاشی خود کفالتی کے لیے رسمی طور پر علوم وفنون سے فراغت کے بعد کوئی نہ کوئی صنعتی یا تجارتی کاروبار بھی اپنایا جن میں صابن سازی سے لے کر پولٹری فارم اور ڈیر ی فارم وغیرہ شامل ہیں ۔ بالآخر پارچہ بافی کے لیے ’رحمانیہ ٹیکسٹائل ملز‘ کی صورت میں اپنا کاروبار مستحکم کیا۔ برصغیر پاک وہند کی تقسیم سے قبل امر تسر میں اُن کی مذکورہ فیکٹری بڑے عروج پر تھی جبکہ پاکستان بننے کے بعد بھی یہی کار وبار لاہور میں ’قدافی سٹیڈیم‘ کے بالمقابل ۲۷۰/ فیروز پور روڈ پر قائم کیا گیا۔ ۱۹۵۳ء میں یہ فیکٹری اچانک آگ لگنے سے تباہ ہوگئی۔ اس کی دوبارہ تعمیر اس انداز سے کی گئی کہ وہاں دینی تعلیم او رصنعتی کاروباربہ یک وقت ممکن ہوسکے۔ گویا شیخ التفسیرحافظ محمد حسین روپڑی کی شخصیت علم وعمل کا حسین امتزاج تھی۔چنانچہ اُنہوں نے معاش اور معاد کے دونوں تقاضے بھر پور طریقے سے پورے کرنے کی کوشش کی۔ ا ن کے منجھلے بیٹے حافظ عبد الرحمن مدنی اپنے دینی، تعلیمی، تحقیقی، دعوتی اور رفاہی وغیرہ سارے |