کام۱۹۸۰ء تک اسی جگہ ’مدرسہ رحمانیہ‘ اور ملحقہ اداروں کی صورت میں انجام دیتے رہے۔ ان تمام خدمات میں جس شخص نے بہت زیادہ حصہ لیا، وہ حافظ عبدالرحمن مدنی کے برادرِ اکبرحافظ عبداللہ حسین روپڑیؒ ہی تھے جن کے دل میں اپنے باپ کا مشن ہر دم موجزن رہتا۔ وہ جب تک لاہور میں رہے، اپنے والد مرحوم کے مشن کی تکمیل کے لیے کوشاں رہے۔ وہ حافظ عبدالرحمن مدنی کا اس طرح سہارا بنے کہ اُنہیں حافظ عبداللہ حسین نے کافی حد تک کاروبار کی اُلجھنوں اور مصروفیتوں سے فارغ کر رکھا تھا اور دینی اداروں کو چلانے کے لیے دونوں بھائی ایک عرصہ مدرسہ رحمانیہ سے ملحق کچی عمارتوں میں سکونت پذیر رہے۔ کراچی منتقل ہونے کے بعد بھی حافظ عبداللہ حسین دین ودنیا کو مجتمع کرنے میں کوشاں رہے۔ پہلے پائپ کے خاندانی کاروبار کے ساتھ بہار کالونی کی جامع مسجد اہل حدیث میں اپنے تبلیغی مشن کو نبھاتے رہے، جہاں حافظ عبدالغفار روپڑی ان کے دست ِراست رہے پھر وہاں سے نقل مکانی کر کے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، کراچی کی جامع مسجد عمر بن عبدالعزیز میں اس مشن کے لیے کوشاں ہوئے۔ چنانچہ اسی مسجد سے ملحقہ عمارت میں ’جامعہ باب الاسلام‘ بھی قائم کیا جس کا افتتاح اُس وقت کے گورنر سندھ محمد میاں سومرو کے ہاتھوں ہوا۔ موصوف کی زندگی بھر یہ کوشش رہی کہ وہ اپنے والد ِگرامی کی طرح بن جائیں ۔واقعی وہ اپنے ظاہری حسن وجمال اور بارعب شخصیت کی بنا پر اپنے والد کا پرتو ہی نظر آتے تھے۔ معنوی طور پر وہ جن خاص خوبیوں کو اختیار کیے ہوتے تھے، ان کو دیکھ کر ان کے والد مرحوم کی نماز اور دعا کی یاد تازہ ہو جاتی تھی۔ وہ بڑی لمبی نماز پڑھا کرتے اور سحر خیزی کے ساتھ اشراق میں بھی رقت آمیز دعاؤں کا اہتمام کرتے۔ ان کا ایمان تھا کہ دعا کے ساتھ ہر تکلیف ٹل جاتی ہے اور ہر خواہش پوری کی جا سکتی ہے۔ اسی لیے موقع بہ موقع حج اور عمرے بھی کرتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے: ((العمرۃ إلی العمرۃ کفارۃ لما بینہما والحج المبرور لیس لہ جزاء إلا الجنۃ)) (صحیح بخاری:۱۷۷۳) ’’ایک عمرہ سے دوسرا عمرہ، دونوں کے مابین ہونے والے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کی جزا جنت کے ماسوا کچھ نہیں ہے۔‘‘ |