حد یقین اور دیانتداری سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر اسرار احمد اس اعتبار سے بے حد خوش قسمت تھے کہ ان کی اولاد ان کی جدوجہد میں ان کا دست و باز و بنی رہی۔ ان کے بیٹے اور بیٹیاں اپنے عظیم والد کی فکر اور طرزِ زندگی دونوں کو اپنائے ہوئے ہیں ۔ ممکن ہے ان میں سے کوئی بھی اپنے عظیم والد جیسی اعلیٰ صفات سے متصف نہ ہو مگر ان کے بارے میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنے والد کے راستے سے جدا راستہ اپنائے ہوئے ہیں ۔ ڈاکٹر اسرار احمد کی بہت بڑی روایت ان کے دروسِ قرآن اور رمضان شریف میں نمازِ تراویح کے دوران ترجمہ وتفسیر کا عمل تھا۔ ان کی زندگی میں چالیس سے زیادہ مساجد میں یہ اہتمام ہوتا تھا۔ راقم الحروف کو بارہا اس میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ ایک عجیب روحانی ثقافت کا احساس ہوتا تھا۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد ایسے اجتماع میں بڑی دلچسپی سے شریک ہوتے رہے ہیں ۔ ایک اور بات جو ڈاکٹر صاحب کے بارے میں نہایت اہم ہے۔ وہ ان کا غیر متزلزل عزم اور بلا کی استقامت اور استقلال ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں بہت سے لوگ اسلامی انقلاب کی منزل کو دور دیکھ کر قدرے مایوسی کا شکار ہوئے مگر ڈاکٹر صاحب مایوس نہیں تھے۔ وہ نتائج سے زیادہ اپنے نظریہ کی صداقت اور جدو جہد کے صحیح ہونے پر انمٹ یقین رکھتے تھے۔ اُنہوں نے جس عظیم ہدف کے حصول کے لئے اپنی جوانی، اُدھیڑ عمری اور پھر شباب آور پیرانہ سالی لگا دی تھی، اس پر اُنہیں بالکل تاسف نہیں تھا۔ اُنہیں اپنے مشن کے متعلق انشراحِ صدر تھا اور اُن کے نزدیک سب سے بڑی کامیابی اور خوش بختی ہی یہ ہے کہ انسان اللہ کی دی ہوئی زندگی کو اس کے راستے پر لگا ئے۔ منزل سے زیادہ منزل کے حصول کی جدوجہد ان کے لئے اہم تھی۔ یہ بات اُنہوں نے فکر ِ اقبال سے حاصل کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کے خطبات سننے کا جن لوگوں کو موقع ملا ہے، وہ گواہی دیں گے کہ وہ فرقہ وارانہ تعصبات سے بالا تر تھے۔ وہ وسیع المشرب دینی سکالر تھے۔ وہ اگرچہ حنفی مسالک سے دلی قربت رکھتے تھے مگر ماہِ رمضان میں بارہا ان کے ہاں سلفی مسلک کے طریق پر نمازِ وتر اَدا کی جاتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب خود کہا کرتے تھے کہ ان کی فکر پر شیخ الہند مولانا محمود الحسن، مولانا ابوالکلام آزاد، علامہ اقبال اور سید ابو الاعلی مودودی رحمہم اللہ کے اَفکار کے اثرات ہیں ۔ |