وحدت الوجود کا نقطہ نظر اختیار نہ فرماتے تو اس تحریک کی معاونت کرنے والے سب سے زیادہ سلفی ہوتے۔ سلفی اور اہل حدیث طبقے میں ڈاکٹر صاحب کو ان کی خدمات کے پیش نظر بحیثیت ِمجموعی پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتاہے،لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر صاحب کے بعض نظریات اورعقائد سے اختلاف کی وجہ سے اہل حدیث اور سلفی نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان کے تحریکی اور تنظیمی کام سے دور رہی۔ وحدت الوجود، نظریۂ ارتقا، ایمان کے بعض مباحث اور عقیدے سے متعلققرآن کے بعض مقامات کی سائنسی تفسیر وغیرہ جیسے ان کے نظریات سلفی علما کے ہاں زیر تنقید رہے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحبؒ اپنے ان عقائد کے بارے یہی توجیہ پیش کرتے تھے کہ یہ میرے ذاتی عقائد ہیں اور ان کا میری تنظیم یا اس میں شمولیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحبؒ کے بقول تنظیم اسلامی کی بنیادی فکر چار بنیادی مباحث پر مشتمل ہے: 1.اسلام مذہب(religion) نہیں بلکہ ایک دین ہے جس میں انفرادی زندگی کے ساتھ اجتماعی زندگی سے متعلق بھی ہدایات اور رہنمائی موجود ہے۔ 2. ایک مسلمان کے بنیادی فرائض تین ہیں : عبادتِ ربّ(زندگی کے ہر گوشے میں ) دعوتِ دین(پورے دین اور خصوصاً قرآن کی) اور اقامت ِدین کی جدوجہد(یعنی نظامِ عدل و قسط کے قیام کے لیے کوشش کرنا) 3.منہج انقلابِ نبوی، یعنی تنظیم اسلامی کا دین کو قائم کرنے کا طریقہ کار نہ تو صرف تبلیغی اور دعوتی سرگرمیوں تک محدود ہے اور نہ ہی عسکری نوعیت کا ہے بلکہ احتجاجی اور انقلابی طریقہ کار ہے ۔ 4.جماعت کی بنیاد ’بیعت ِجہاد‘ ہو گی۔اور جہاد سے مراد صرف قتال نہیں ہے بلکہ وسیع معنوں میں جہاد یعنی غلبہ دین کی علمی وعملی جدوجہد مراد ہے۔ ڈاکٹر صاحب ؒ کا کہنا یہ تھا کہ جسے ان چار بنیادوں سے اتفاق ہو، چاہے وہ سلفی ہو یا حنفی ‘ تنظیم میں شامل ہو سکتا ہے۔ اورتنظیم میں شامل ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ہر مسئلے میں ڈاکٹر صاحب کی تحقیق پر اعتماد کرے یا فقہی مسائل میں ان کا مقلد بن جائے یا ان کے عقائد ونظریات کی پابندی کرے۔ بہر حال آخر عمر میں ڈاکٹر صاحب نے تنظیم کی شوریٰ میں یہ بات رکھی تھی کہ جن اصحاب کو |