میری بعض آرا یا نظریات سے اتفاق نہیں ہے تو میں ان کے ساتھ مل بیٹھ کر گفتگو کرنا چاہتا ہوں تا کہ اگر میں غلطی پر ہوں تو رجو ع کر لوں ۔ اس سلسلے میں بہت سارے لوگوں نے اپنے نام تنظیم کے مرکز میں لکھوا دیے۔ راقم نے بھی عقائد کے ان موضوعات کے تعین کے ساتھ اپنا نام جمع کروایا، لیکن اس ملاقات کی نوبت نہ آنے پائی تھی کہ قضاے الٰہی نے ڈاکٹر صاحب کو آلیا۔ راقم کو یہ قوی اُمید تھی کہ اگرڈاکٹر صاحبؒ سے یہ ملاقات ہوتی تو وہ ضروروحدت الوجود وغیرہ اَفکاراور نظریات سے رجوع فرما لیتے۔ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب مرحوم کے اخلاص کی بنا پر ان کی لغزشیں معاف کرے اور انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دے۔آمین ڈاکٹر صاحب ؒ جس بات کو حق سمجھتے تھے، اس کو بیان کرنے میں کسی کی ملامت کی پرواہ نہ کرتے تھے، ان میں جراتِ ایمانی بہت زیادہ تھی۔ ایک دوسری بات جو راقم نے محسوس کی کہ وہ وقت کے بہت زیادہ پابند تھے اور پابندیٔ وقت کو ہمیشہ ملحوظ رکھتے تھے اور وقت کو بالکل بھی ضائع نہ کرتے تھے۔ عین نماز کے وقت مسجد میں تشریف لانا اور اگر تین یا چار منٹ بھی نماز میں رہتے ہوں تو فوراً نفل نماز کی نیت باندھ لینا، ان کا روزہ مرہ کا معمول تھا۔ قرآن اور دین اسلام کی خدمت میں محترم جناب ڈاکٹر صاحبؒ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ اُنہوں نے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں نوجوانوں کی زندگیوں کا رخ تبدیل کر دیا۔اُ ن کے کام کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ اللہ نے ان سے کام لیا ہے۔ پہلے اللہ سبحانہ و تعالیٰ انبیاء و رسل کو دنیا کی اصلاح کے لیے بھیجتے تھے تو آپؐ کی اُمت میں یہی کام اللہ تعالیٰ علماء اور اپنے نیک بندوں سے لیتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب کسی مدرسے سے فارغ (مستند عالم دین) تو نہ تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سے دین کا وہی کام لیا ہے جو اللہ تعالیٰ ہر دور میں اپنے دین کی تجدید کے حوالے سے اپنے نیک بندوں سے لیتے رہے ہیں ۔ بلاشہ ڈاکٹر اسرار احمد ؒ قرآنِ کریم کی طرف رجوع کی تحریک کے ایک عظیم رہنما تھے۔اس مشن میں انہوں نے نہ اپنی صحت کی پروا کی اور نہ ہی مال واولاد کی۔اللہ تعالیٰ ان کا اخلاص اور جہاد قبول فرمائے۔ ﴿بَلٰی مَنْ أسْلَمَ وَجْہَہٗ ﷲِ وَہُوَ مُحْسِنٌ فَلَہٗ أجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾ (البقرۃ:۱۱۲) |