ٹاؤن لاہور کے ناظم رہے، طلبہ کے لیے دودھ دینے والی بھینسوں کا انتظام کرتے اور اُنہیں نمازِ فجر سے پہلے اُٹھا کر روحانی عبادت اور جسمانی ورزشیں کرواتے جبکہ نمازِ فجر کے بعد نہار منہ دودھ اور دہی پلاتے۔ اسی طرح اچھی بود وباش کا خصوصی خیال رکھتے۔ اگر کوئی طالب علم اعلیٰ لباس و زینت کی خواہش کرتا تواس کی خواہش اپنی جیب سے پوری کر دیتے، پھر کہتے کہ اب یکسو ہو کر پڑھائی کرو۔ اخلاقی تربیت کا بہت دھیان رکھتے۔ ایک دفعہ کسی طالب علم کی خواہش و ضروریات پوری کرنے کے باوجود اگر وہ علم واخلاق میں کوتاہی کرتا تو اس کا کڑا محاسبہ کرتے۔ کاروبار سے جب بھی معمولی فراغت پاتے، تبلیغی دورے کے لیے نکل جاتے۔ ان کی زبان میں بڑی تاثیر تھی ۔ مجلسی گفتگو نپی تلی کرتے۔ ان کی شخصیت اور متانت سے مخاطب نہ صرف متاثر ہوتا بلکہ عقیدت مندی اختیار کر لیتا۔ گویاوفد عبدالقیس کے اشج عصری سے ان کی مشابہت تھی جس کاقصہ یوں ہے: ’’اشج عصری اپنے قبیلے کے وفد کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کو آئے۔نبیؐ کے پاس پہنچے تو نبی اکرم ان کی طرف اٹھے۔اب قوم نے اپنی سواریوں کو بٹھایا اور جلدی میں وہی سفری لباس میں نبیؐ کے پاس آئے جب کہ اشج عصری اٹھے اور پہلے انہوں نے اپنے ساتھیوں کی سواریوں کو باندھا پھر اپنی سواری باندھی اس کے بعد اپنے کپڑوں کو درست کیا اور نبی کے پاس جاکر سلام کہا اور یہ سب کچھ آپ دیکھ رہے تھے ۔آپؐ نے اشج عصریؓ کے اس اقدام پر فرمایا:((إنَّ فیک لخصلتین یحبہما اﷲ ورسولہ)) تم میں دو ایسی خصلتیں ہیں جن کو اللہ اور اس کا رسول پسند کرتے ہیں ۔أشج کہنے لگے وہ کونسی؟فرمایا: ((الأناۃ والحلم))’’زیرکی اور بردباری‘‘ (صحیح ابن حبان:۷۱۵۹) حافظ صاحب کثیر العیال تھے، ان کے ورثا میں دو بیویاں ، ۱۱بیٹے اور ۵ بیٹیاں ہیں ۔ ان سب کی سخت دینی تربیت کے ساتھ وہ ان کے رزقِ حلال کے لیے اَن تھک محنت کرتے رہے۔ خاندانی کاروبار چھوڑ کر اُنہوں نے سعودی عرب اور دبئی میں اپنے لڑکوں کے نئے کاروبار قائم کرنے کی بھی کوششیں کیں ، لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ بالآخر کراچی میں ایک وسیع وعریض کالونی ’گلشن معمار‘ کے نام سے اُنہوں نے ڈویلپ کر لی تھی کہ بیمار ہوگئے اور تقریباً پانچ سال سے وہ گردوں کے فیل ہو جانے کے سبب ڈائیلسزکے عمل سے گزر رہے تھے جس |