کے دوران کئی دفعہ دل کا دورہ پڑا اور ان پر فالج کے کئی حملے بھی ہوئے، لیکن اُنہوں نے ہر تکلیف پر ہمیشہ صبر وشکر کیا اور زبان پر کبھی حرفِ شکایت نہ لائے۔ جب بھی ان کی صحت کے بارے میں پوچھا جاتا تو وہ نہایت اطمینان کا اظہار کرتے اور سورۃ الدہر کی آیت ِکریمہ ﴿ نَحْنُ خَلَقْنٰہُمْ وَشَدَدْنَا اَسْرَہُمْ وَاِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَا اَمْثَالَہُمْ تَبْدِیٍلاً﴾ ’’ہم ہی نے ان کو پیدا کیا اور ہم ہی نے ان کے جوڑ بند مضبوط کیے اور ہم جب چاہیں ان کی جگہ انہی کی طرح دوسرے آدمیوں کو لا کر بسا دیں ۔‘‘کی روشنی میں اللہ سے اپنی اُمید باندھ لیتے۔ اس بارے میں ان کا ایمان و توکل مثالی تھا۔ ہمیشہ کہتے کہ اللہ تعالیٰ عافیت میں رکھے۔ اگر کوئی آزمائش سے ڈراتا تو کہتے: ’’اگر اللہ کی مرضی یہی ہے تو پھر وہی سب سے بڑا مددگار اور سہارا ہوتا ہے۔‘‘ اس طرح بڑے سے بڑا دکھ سہار جاتے۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے اور ان کے جانشینوں کو ان کے نقش قدم پر گامزن کرے۔ ﴿وَیَزِیْدُ اﷲُ الَّذِیْنَ اہْتَدَوْا ہُدًی وَالْبٰقِیٰتُ الصَّالِحَاتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَخَیْرٌ مَرَدًّا﴾ (مریم:۷۶) ’’اور جو لوگ سیدھی راہ پر ہیں اللہ ان کو زیادہ (نیک کام کرنے) کی راہ سجھاتا جاتا ہے اور قائم رہنے والی تیرے مالک کے نزدیک اچھا بدلہ رکھتی ہے اور اچھا انجام۔‘‘ |