رہا۔ وہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ہمارے میڈیا نے ایک شادی جیسے ذاتی مسئلہ کو اس قدر تشہیر کیوں دی؟ کیا اس میں ان کا کوئی مالی مفاد وابستہ ہے؟ اُنہیں اپنی ہردل عزیزی بڑھانے کے لیے اس واقعہ کو اچھالنے کی ضرورت پیش آئی؟کیا کسی بین الاقوامی طاقت یاایجنسی نے اُنہیں یہ ایجنڈا دیا ہے؟ آخر یہ ایجنڈا کیوں دیاگیا، کیا یہ کوئی سازش ہے؟ کیا میڈیا کے ذمہ داران پاکستانی عوام کو خوشی کے مواقع دکھا کر ان کی ذہنی پریشانی کو کم کرنے کے مشن کو پورا کررہے تھے؟ کیا واقعی اس طرح کی میڈیا کی دیوانگی سے پاکستانی عوام کی پریشانیاں کم ہوسکتی ہیں ؟ کیا پاکستانی عوام جو اس وقت شدید مہنگائی اور مالی پریشانیوں کا شکار ہیں ، ان کے لیے اس ’گلیمر‘ اور بے جا اسراف میں کوئی دلچسپی اور جمالی کا عنصر پایا جاتا ہے؟ کیا ہمارے معاشرے میں ’گلیمر‘ ہی سب کچھ ہے، دیگر تہذیبی اقدار کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ کیا ہمارا میڈیا یورپی میڈیا کے اتباع میں اس طرح کے پروگرامات پیش کرنے کا کوئی جواز رکھتا ہے؟ کیا کسی کی ذاتی زندگی میں اس طرح کی مداخلت جائز ہے؟ ایک نان ایشو کو آخر اتنا بڑا ایشو بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ آواری ہوٹل کا فلور نمبر ۸ پورے کا پورا کئی دنوں کے لیے بک کرایا گیاہے، یہ اخراجات کون برداشت کررہاہے؟ شعیب ملک اگر اتنادولت مند ہوتا، تو میڈیا والوں کو اپنے ولیمے کی کوریج کے لیے حقوق خریدنے کے لیے ساڑھے تین کروڑ کی بات کیوں کرتا؟ اگر شعیب ملک کے پاس اس قدر زیادہ دولت ہے، تو کیا وہ انکم ٹیکس بھی ادا کرتا رہا ہے؟ اگر یہ سارے اخراجات کسی اور نے اٹھائے ہیں ، تو ان کے تقدس مآب چہرے سے نقاب اُلٹنا چاہئے؟ پھراُنہیں یہ بھی بتانا چاہئے کہ اتنی بڑی رقم کس توقع پر خرچ کر ڈالی ہے؟ اخباری اطلاعات کے مطابق انڈیا کے کسی بھی چینل یا کسی بھی آرٹسٹ نے اس شادی کو اہمیت نہیں دی۔ کشور ناہید جو انڈیا سے واپس آئی ہیں ، لکھتی ہیں : ’’معلوم نہیں جان بوجھ کر بائیکاٹ کیا گیا تھا، ہندوستانی چینل اس خبر کو اہمیت ہی نہیں دے رہے تھے۔‘‘ (جنگ۲۴/اپریل۲۰۱۰) ہمارے ایک لبرل دانشور ایازامیر صاحب نے میڈیا کی غیر معمولی دلچسپی کی توجیہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’حالیہ دہائی میں برصغیر میں کوئی اسپورٹس سیکس سمبل ہوئی ہے تووہ کروڑوں دلوں کی دھڑکن ثانیہ مرزا کے علاوہ کوئی اور شخصیت نہیں ۔‘‘ میر صاحب نے تو اپنی طرف سے تعریف کی ہے، مگر ہمارا خیال ہے کہ ثانیہ مرزا کے والدین اپنی بیٹی کو اور شعیب ملک اپنی بیوی کو ’سیکس سمبل‘ کے طور پر پیش کرنا پسند نہیں کریں گے۔ شاید میر صاحب سیکس کو Gendre کے معنوں میں لے رہے ہیں ۔ ثانیہ مرزا بھی اتنی لبرل نہیں ہے جو ان ریمارکس کو قبول کرے۔ وہ اپنے انٹرویوز میں کہہ چکی ہے کہ ’شارٹ‘ کپڑے پہن کر کھیلنا گناہ ہے اور وہ اپنے خدا سے اس کی معافی مانگ چکی ہیں ، وہ اللہ سے معافی کی اُمید رکھتی ہیں ۔‘‘ جو لڑکی گناہ اور ثواب کا یہ تصور رکھتی ہو وہ ’سیکس سمبل‘ کہلانا شاید پسند نہ کرے۔ مگر ہمارے لبرل دانشور مغربی میڈیا کے اتباع میں اپنے ذہنوں میں اس کے’سیکس سمبل‘ ہونے کا غلط تصور قائم کئے ہوئے ہیں ۔ شعیب ملک کا بہنوئی عمران ظفر جو اس کی ترجمانی کے فرائض انجام دیتا رہا ہے، سیالکوٹ میں استقبالیہ تقریب کے دوران آخر کار چیخ اُٹھا کہ خدا کے لیے میڈیا سرکس بند کرو۔(جنگ) انصار عباسی واحد صحافی ہیں جنہوں نے صحافیوں کی زیادتی پر توجہ دلائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ’’شعیب ملک اور ثانیہ مرزا بھی میڈیا کی اس |