کا سفارتی قافلہ بھی نمودار ہوا تھا جس کے استقبال کے لیے پاکستان کی این جی اوز کی خواتین نے والہانہ انداز میں کیکلی کا رقص پیش کیا تھا۔ اس دفعہ جو بھارتی وفد آیا ہے اس کی قیادت ایک ریٹائرڈ ایڈمرل فرما رہے ہیں ، ان کے ساتھ بھارتی افواج کے ریٹائرڈ افسر اور دانشور آئے ہیں ۔ ’امن کی آشا‘ کے اس وفد کی آمد کو ذرا ان بیانات سے ملا کر پڑھیے جس میں کہا جارہا ہے کہ شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کی شادی دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کے قیام کے لیے معاون ثابت ہوگی۔ یہ سارے واقعات ایک ہی ڈرامے کے مختلف ایکٹ نظر آتے ہیں ۔ اس ڈرامے کا پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کون ہے؟ اگر یہ راز طشت ازبام ہوجائے تو پھر اس ڈرامے کی ساری سنسنی خیزی ختم ہوجائے گی۔ ۲۵/ اپریل کونئے شادی شدہ جوڑے کو سیالکوٹ میں استقبالیہ دیا گیا۔ اس استقبالیے کے اسٹیج کو تیار کرنے کے لیے ۲۰ لاکھ روپے خرچ کئے گئے، مکمل خرچہ یقینا کروڑوں میں ہوگا۔اس کے کارڈز دس دس ہزار میں بلیک میں فروخت ہوئے۔ کھانوں کی اقسام اور لذتوں کاجو بیان میڈیا میں آتا رہا، اچھے خاصوں کی رال ٹپکانے کے لیے کافی تھا۔ کیا ایسی تقریبات میں ون ڈش کی پابندی ضروری نہیں ہے؟ اس کی وضاحت کے متعلق عوام کو کچھ نہیں بتایا گیا۔ یہ استقبالیہ اس قدر بدانتظامی اور ہڑبونگ کا شکار ہوگیا کہ ثانیہ مرزا روپڑی اور اپنے دلہن ہونے کا احساس کئے بغیر شعیب ملک سے اُلجھ پڑی کہ وہ اسے کس مصیبت میں لے آیا ہے؟ اخبارات اور ٹی وی چینلز نے رپورٹ کیا کہ ثانیہ مرزا کے والدین نے احتجاجاً سیالکوٹ میں شعیب ملک کے گھر جانے سے معذرت کرلی اور لاہور کے لیے روانہ ہوگئے۔ شعیب ملک بھی پھٹ پڑا۔ اس نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا : ’’آخر ہمارے ہاں لیڈیزکے ساتھ اس طرح چمٹ کرنہیں چلا جاتا، لیڈیز کا خیال کرنا چاہئے۔‘‘ ہم یہی کہیں گے: ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا !؟ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ شعیب ملک اور ثانیہ مرزا میڈیا میں اس فقید المثال کوریج کے بعد خوشی سے پاگل ہوگئے ہوں گے، ان کے قدم زمین پر نہیں ٹکتے ہوں گے، وہ اپنے آپ کو کسی کوہ قاف جیسے پرستان کے باسی سمجھنا شروع ہوگئے ہوں گے۔ شاید ایسا نہیں ہوا۔ ایک حد تک تو اُنہیں خوشی ضرور ہوتی، مگر پاپا رازیوں (صحافی، کیمرہ مین) نے جب اُنہیں اپنے نرغے میں لے لیا تو ان کے اعصاب نے جواب دے دیا۔ ان کی باڈی لینگویج سے یوں لگتا تھا جیسے وہ شدید نفسیاتی خوف اور بے چینی کا شکار تھے۔ ثانیہ مرزا کہہ چکی تھی کہ وہ پاکستان کی بہو نہیں ، صرف شعیب کی بیوی ہے، مگر اس کا یہ بیان بھی پاپا رازیوں کو دور ہٹانے میں مؤثر ثابت نہ ہوا۔ آج سے چند سال پہلے شہزادی ڈیانا بھی انہی پاپا رازیوں کے مجنونانہ تعاقب کی وجہ سے حادثے کا شکار ہوئی تھی اور جان دے بیٹھی تھی۔ یہ بات ایک حقیقت ہے کہ جب کسی کو میڈیا میں اتنا زیادہ فوکس کردیا جائے، تو وہ دہشت گردوں کے لیے ہائی ویلیو ٹارگٹ بن جاتاہے۔ شاید یہ بات بھی ثانیہ مرزا اور اس کے خاندان کو پریشان کررہی تھی۔ یہی شعیب ملک جوچند مہینے پہلے لاہور جیسے شہرمیں آزادانہ پھرا کرتا تھا، جب ثانیہ مرزا کے ساتھ آیا تو فائیو سٹار ہوٹل میں محصور ہوکر رہ گیا اور پولیس کی اجازت کے بغیر اپنی بیوی کو لاہور دکھانے کے لیے باہر تک نہیں نکل سکتا تھا۔ پاکستانی عوام کے ذہنوں میں بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں مگر ان کے جوابات کوئی نہیں دے |