دیوانگی سے پریشان اور ہراساں نظر آرہے تھے، جب ٹی وی چینل دیکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد میڈیاکی اس دیوانگی سے تنگ آچکی ہے تو نجانے جن پر گزر رہی ہے، ان کا اصل میں کیا حال ہوگا۔جب سے شعیب ثانیہ کی شادی کی خبر آئی ہے، اس وقت سے الیکٹرانک میڈیا نے پوری قوم کو ایک ہیجان میں مبتلا کررکھا ہے۔‘‘ (جنگ۲۶/اپریل۲۰۱۰) ہم سمجھتے ہیں کہ اس سارے ہیجان میں پاکستانی قوم،شعیب اور ثانیہ، ان کے عزیزوں اور حتیٰ کہ ان پاپا رازی صحافیوں کا بھی استحصال ہوا ہے جنہیں دن رات ان کے تعاقب پرلگایا گیا ہے۔ بہت جلد ہی شعیب اور ثانیہ مرزا کو احساس ہوجائے گا کہ ان کی ذاتی شادی کی تقریب کو کن قوتوں نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ اُنہیں خود سمجھ آجائے گی کہ وہ اتنے بڑے ہیرو اور اسٹار نہیں ہیں جتنا اُنہیں بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ پاپا رازی صحافی بے حد پیشہ وارانہ مسابقت سے اس شادی کوکوریج دے رہے ہیں ۔ وہ شاید اسے اپنی کامیابی سمجھ رہے ہیں ۔ شاید اُنہیں علم ہوجائے کہ ان سے یہ ٹاسک کیوں لیا جارہا ہے؟ اُنہیں ہندوستان جاکر ثانیہ مرزا کے گھر کے سامنے ڈیرے ڈال کر پڑا رہنے کو کیوں کہا گیا؟ اور پھر ان سے فائیوسٹار ہوٹل کے باتھ روم تک کی فوٹو گرافی کیوں کرائی گئی، وہ تو بے چارے کیمرے کے مزدور ہیں ، اصل قصور وار وہ ہیں جنہوں نے اُن سے یہ سب مشن پوراکرایا ہے۔ بالکل اسی طرح کا ایک مشن افغانستان میں بھی پورا کرایا جارہا ہے۔ جو مشن ڈیزی کٹر بموں کے حملوں سے پورا نہیں ہوا، اُسے اب کیمرے کی آنکھ سے پورا کیا جارہا ہے۔ گذشتہ ایک ماہ سے نیشنل جغرافک ٹی وی نے افغانستان کے بارے میں ایک دستاویزی فلم بار بار دکھائی ہے۔اس کاعنوان ہے ’فن اسٹار‘ (Fun star)۔ اس فلم میں افغانستان کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو تربیت دے کر ان سے موسیقی کے مقابلے کرائے گئے۔ فلم کا مقصد طالبان کی وحشیانہ تہذیب کو بدل کر مغرب کی روشن خیال تہذیب کو نوجوان نسل میں متعارف کرانا ہے۔ یہاں تفصیلات کی گنجائش نہیں ہے۔ ۱۱/۹ کی شام کو امریکی صدر جارج ڈبلیوبش نے دہشت گردی کے بعد قوم سے اپنے پہلے خطاب میں کہا: ’’امریکہ کو ان حملوں کاہدف اس لیے بنایا گیا ہے،کیونکہ ہم آزادی کی روشن ترین کرن ہیں ۔ اُنہوں نے کہا کہ امریکی عوام پوچھتے ہیں : آخر وہ ہم سے نفرت کیوں کرتے ہیں ؟دہشت گرد ہم سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ ہم جمہوری اقدار پریقین رکھتے ہیں ۔ اُنہوں نے مذکورہ حملوں کو انسانی تہذیب ، اعلیٰ امریکی اقدار اور آزادی پرحملہ قرار دیا۔‘‘ امریکہ اقدار میں سے اہم ترین قدر’ سرمایہ دارانہ صارفیت‘ ہے۔ وسیع پیمانے پر پروڈکشن کا فائدہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب وسیع پیمانہ پرکھپت بھی ہو۔اس کے لیے انڈیا اور پاکستان جیسے بڑی آبادیوں کے ممالک کی مارکیٹ پر قبضہ ضروری ہے۔ چونکہ صارفیت کا زیادہ انحصار عورتو ں پر ہے، اس لیے اُنہیں مارکیٹ میں لانا ضروری ہے۔ عورتوں کے رویے بدلنے کے لیے ’رول ماڈل‘ کی تلاش رہتی ہے۔ اگر ثانیہ مرزا جیسی لڑکیوں کو رول ماڈل بنا کر پیش کیا جائے تو روایتی معاشروں میں تہذیبی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ شعیب ثانیہ کی شادی اور میڈیا کے کردار کو اس مرکزی خیال کے بغیر سمجھنا مشکل ہے۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں ! …٭٭٭… |