دفعہ نمبر (۶): شریعت کے خلاف احکامات دینے پر پابندی: انتظامیہ کا کوئی بھی فرد، بشمول صدرِ مملکت اور وزیر اعظم، شریعت کے خلاف کوئی حکم نہیں دے سکے گا اور اگر کوئی ایسا حکم دیا گیا، تو اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہو گی اور اسے وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا جا سکے گا، بشرطیکہ شکایت کنندہ کے لئے کوئی اور قانونی مداوا موجود نہ ہو۔ دفعہ نمبر (۷): عدالتی عمل اور احتساب: حکومت کے تمامعمال، بشمول صدرِ مملکت، اسلامی قانونِ عدل کے مطابق احتساب سے بالاتر نہیں ہوں گے۔ دفعہ نمبر (۸): مسلمہ اِسلامی فرق کے شخصی معاملات ان کے اپنے اپنے فقہی مسالک کے مطابق طے کئے جائیں گے۔ دفعہ نمبر (۹): غیر مسلم کو تبلیغ کی آزادی: یہ شق حذف کر دی گئی ہے، کیونکہ دفعہ (۱) کی شق (ج) کے بعد اس کی ضرورت نہیں ۔ سفارشی دفعہ نمبر (۱۰): علمائے دین کو جج مقرر کیا جائے: تمام عدالتوں میں حسبِ ضرورت تجربہ کار اور جید علمائے دین کا بحیثیتِ جج اور معاونین عدالت تقرر کیا جائے۔ سفارشی دفعہ نمبر (۱۱): ججوں کی تربیت کے انتطامات: علومِ شرعیہ اور اسلامی قانون کی تعلیم اور ججوں کی تربیت کا ایسا انتظام کیا جائے گا کہ مستقبل میں علومِ شرعیہ اور خصوصاً اسلامی قانون کے ماہر جج تیار ہو سکیں ۔ دفعہ نمبر (۱۲): قرآن و سنت کی تعبیر کا طریق کار: قرآن و سنت کی تعبیر کا طریق کار وہی معتبر ہو گا جو مسلمہ مجتہدین کے علم اُصولِ تفسیر اور علم اُصول حدیث و فقہ کے مسلمہ قواعد اور ضوابط کے مطابق ہو۔ دفعہ نمبر (۱۳): عمالِ حکومت کے لئے شریعت کی پابندی: انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ کے ہر فرد کے لئے فرائضِ شریعت کی پابندی اور محرمات سے |