دفعہ نمبر (۲): تعریفات: اس ایکٹ میں تاوقت یہ کہ متنسے کوئی مختلف مفہوم مطلوب ہو، مندرجہ ذیل اصطلاحات سے وہ مفہوم مراد ہے جو ذیل میں اُنہیں دیا گیا ہے۔ یعنی: الف) ’قرار دادِ مقاصد‘ سے مراد وہ مفہوم ہے جو آرٹیکل ۲/ الف، دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان ۱۹۷۳ء میں اسے دیا گیا ہے۔ ب) ’مقررہ‘ سے مراد اس ایکٹ کے تحت مقررہ قواعد ہیں ۔ ج) ’شریعت‘ سے مراد قرآن و سنت ہیں ۔ توضیح: قرآن و سنت کے اَحکام کی تعبیر کرتے ہوئے درج ذیل مآخذ سے رہنمائی حاصل کی جائے گی: (۱) سنت خلفائے راشدین (۲) تعامل اہلِ بیت عظام و صحابہ کرام (۳) اجماعِ اُمت (۴) مسلمہ فقہائے اسلام کی تشریحات و آراء دفعہ نمبر (۳): شریعت کی دیگر قوانین پر بالاتری: کسی دیگر قانون، رواج، تعامل یا بعض فریقوں کے مابین معاملہ یا لین دین میں شامل کسی بھی امر کے اس سے مختلف ہونے کے باوجود شریعت، پاکستان میں بالا تر قانون کی حیثیت سے مؤثر ہو گی۔ دفعہ نمبر (۴): عدالتیں شریعت کے مطابق مقدمات کا فیصلہ کریں گی: ملک کی تمام عدالتیں تمام اُمور و مقدمات بشمول مالی اُمور وغیرہ میں شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہوں گی اور شریعت کے خلاف فیصلوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہو گی۔ اگر کسی عدالت میں یہ سوال اُٹھایا جائے کہ آیا کوئی قانون یا فیصلہ شریعت کے منافی ہے، تو اس مسئلہ کے تصفیہ کے لئے وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔ دفعہ نمبر (۵): وفاقی شرعی عدالت کا دائرۂ اختیار: وفاقی شرعی عدالت کا دائرہ اختیارِ سماعت و فیصلہ، بلا استثنیٰ تمام اُمور و مقدمات پر حاوی ہو گا۔ |