Maktaba Wahhabi

127 - 160
نسائی کی روایت میں ہے کہ اُمیمہ رضی اللہ عنہ نے سورۃ الممتحنہ کی آیت تلاوت کی اور اس آیت کے مطابق بیعت کی۔اس آیت میں چھ باتوں سے روکاگیا ہے: (۱)شرک(۲)چوری(۳) زنا (۴) قتل اولاد (۵) کسی پربہتان گھڑنا اور (۶)معروف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی سے اجتناب۔(الممتحنہ: آیت ۱۲) ان باتوں کے علاوہ آپ عورتوں سے نوحہ نہ کرنے، غم میں گریبان چاک نہ کرنے، سر کے بال نہ نوچنے اور جاہلیت کی طرح بین نہ کرنے پربھی بیعت لیا کرتے تھے۔[1] قرآن مجید میں سلام کے اَحکامات قرآنِ مجید کے مطالعے سے بھی سلام کی اہمیت کااندازہ لگایا جاسکتا ہے : 1. اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ’السلام‘ بھی ہے جس کا مطلب’’امن و سلامتی عطا کرنے والا ہے۔‘‘ (الحشر:۲۳) نبی مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور دعاؤں میں سے ایک دعا کے الفاظ یہ ہیں : (( اللھم أنت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذا الجلال والإکرام›))[2] ’’اے اللہ! تو ہی سلامتی عطا کرنے والا اور تیری ہی طرف سے سلامتی ہے۔ تو بہت بابرکت ہے،اے صاحب ِجلال و اکرام!‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا کو فرض نماز کے بعدپڑھا کرتے تھے۔ 2. اللہ تعالیٰ نے گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کہنے کا حکم دیا ہے : ﴿فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰی اَنْفُسِکُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰه مُبٰرَكَةً طَيِّبةًَ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰه لَکُمُ الاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾(النور:۶۱) ’’پس جب تم اپنے گھروں میں داخل ہواکرو تو اپنے لوگوں (گھر والوں ) کو سلام کہاکرو۔ یہ اللہ کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے۔ اسی طرح اللہ اپنی آیات تمہارے لیے کھول کر
Flag Counter