تباہ کن معاشی حالات پیدا نہیں ہوتے رہے جن سے لوگ کاغذی کرنسی کی وجہ سے دوچار ہیں ۔ اس لئے ماہرینِ معیشت کی رائے میں کاغذی کرنسی کی قدر میں ہوش ربا تغیر اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مہنگائی کے طوفانوں کا ایک ہی حل ہے کہ مالیاتی لین دین کی بنیاد سونے ،چاندی کو بنایا جائے۔ چنانچہ آج کل پوری دنیا میں مختلف حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ دوبارہ سونے،چاندی کے سکوں کا نظام رائج کیاجائے۔ ابن مقریزی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی نرخوں میں بے تحاشہ اضافے کا حل یہی ہے کہ ازسرنو ’معیاری قاعدۂ زر‘ ( Gold Specie Standard)کا اِجرا کیا جائے۔ چنانچہ کویت کے فقہی انسا ئیکلوپیڈیا میں ان کی رائے یوں درج ہے: ’’نرخوں میں افراتفری اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مہنگائی کی موجوں کا علاج صرف یہ ہے کہ سونے اور چاندی کے زر کے استعمال کی طرف لوٹا جا ئے۔‘‘ ان کے دور میں افراطِ زر کا جو بحران پیدا ہوا تھا، ان کی نظر میں اس کا ایک سبب سونے کی جگہ معدنی سکوں سے لین دین تھاجس سے قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئیں ۔ چنانچہ وہ اس پر روشنی ڈالنے کے بعد فرماتے ہیں : ’’اگر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو توفیق دے دیں جن کے سپرد اس نے اپنے بندوں کے اُمور کر رکھے ہیں یہاں تک کہ وہ لین دین کو سونے کی طرف لے جائیں اور سامان کی قیمتوں اور اُجرتوں کے دینار اور درہم سے وابستہ کر دیں تو اس سے اُمت کا بھلا اور اُمور کی اِصلاح ہو گی۔‘‘ (الموسوعۃ الفقہیۃ : ۴۱ /۴۸،۴۹ ) جبکہ جدیدماہرینِ معیشت کے نزدیک حکومت کا حقیقی پیداوار کو نظر انداز کرکے نوٹ چھاپنا، اشیاء و خدمات کی طلب و رسد کے درمیان عدمِ توازن،اِسراف و تبذیر،تاجروں میں ناجائز منافع خوری کا رجحان اوراشیا کی پیداواری لاگت میں اضافہ وہ عوامل ہیں جو کرنسی کی قدر میں عدمِ استحکام پیدا کرتے ہیں ۔ ان مسائل کو حل کر کے کرنسی کی قدر میں استحکام پیدا کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ سونے ،چاندی کے سکے لازمی شرعی تقاضا نہیں ، علاوہ ازیں سونے، چاندی کے سکوں کی پابندی ریاست کے لئے غیر ضروری زحمت کا موجب بھی بن سکتی ہے، ممکن ہے |