آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک اونٹ کی قیمت ۳۴گرام سونا بنی، آج بھی اتنے سونے کے عوض ایک اونٹ خریدا جاسکتا ہے۔ اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اونٹ گراں ہونے پر دیت کی قیمت آٹھ سو سے بڑھا کر ہزار دینار کر دی تھی، مگر آج کل ایک سو اونٹ خریدنے کے لئے آٹھ سو دینار یعنی ۳۴۰۰ گرام سونا کافی ہے ۔ ٭ حضرت عروہ بارقی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : أَعْطَاہُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم دِینَارًا یَشْتَرِي بِہِ أُضْحِیَۃً أَوْ شَاۃً فَاشْتَرٰی شَاتَیْنِ فَبَاعَ إِحْدَاہُمَا بِدِینَارٍ فَأَتَاہُ بِشَاۃٍ وَدِینَارٍ (سنن أبی داؤد:۳۳۸۴) ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک دینار دیا تا کہ وہ اس سے ایک قربانی یا ایک بکری خریدے۔ اُنہوں نے دو بکریاں خرید لیں ،پھر ان میں سے ایک کو ایک دینار میں بیچ دیا اور ایک بکری اور ایک دینار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے ۔‘‘ یعنی عہد ِ رسالت میں ۲۵ء۴ گرام سونے کے عوض ایک بکری خریدی جا سکتی تھی، آج بھی سونے کی قوتِ خرید یہی ہے۔ ان دو مثالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عہد ِرسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر اب تک سونے کی قدر میں غیر معمولی کمی نہیں ہوئی، اگر کسی دور میں ایسا ہوا بھی تو بعد میں معاملہ اُلٹ ہو گیا ۔البتہ اس عرصہ کے دوران سونے کی نسبت چاندی کی قوتِ خرید میں کافی کمی آئی ہے: عہد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں دس درہم (تقریباً تیس گرام) چاندی سے ایک بکری خریدی جا سکتی تھی، اس کی دلیل وہ روایت ہے جس میں اونٹوں کی زکوٰۃ کے ضمن میں یہ بیان ہواہے : مَنْ بَلَغَتْ عِنْدَہُ مِنَ الإِبِلِ صَدَقَۃُ الْجَذَعَۃِ، وَلَیْسَتْ عِنْدَہُ جَذَعَۃٌ وَعِنْدَہُ حِقَّۃٌ، فَإِنَّہَا تُقْبَلُ مِنْہُ الْحِقَّۃُ وَیَجْعَلُ مَعَہَا شَاتَیْنِ إِنِ اسْتَیْسَرَتَا لَہُ أَوْ عِشْرِینَ دِرْہَمًا (صحیح بخاری: ۱۴۵۳) ’’جس کے اونٹوں کی زکوٰۃ میں جذعہ (چار سالہ اونٹ) فرض ہو اور اس کے پاس جذعہ نہ ہو تو اس سے تین سالہ اونٹ قبول کر لیا جائے گااور وہ ساتھ دو بکریاں اگر آسانی سے میسر ہوں دے گا یا بیس درہم۔‘‘ یعنی ایک بکری کے بدلے دس درہم لیکن آج کل اتنی چاندی میں ایک بکری نہیں خریدی جاسکتی۔ تاہم اس کمی سے اس قسم کے |