معاملات کو ممنوع قرار دیاہے جو عدل کے منافی ہیں ، چونکہ تمام مالی معاملات در حقیقت زرہی کے گرد گھومتے ہیں اورکسی مالی معاہدے کے وقوع اور وقت ادائیگی کے درمیان زر کی قوتِ خرید میں غیر معمولی کمی سے صاحب ِ حق کا متأثر ہونا یقینی ہے جو تقاضاے عدل کے خلاف ہے، اسی بناپر بعض مسلم مفکرین افراطِ زر کو بخس،تطفیف اورملاوٹ میں شمار کرتے ہیں ۔ چنانچہ اسلامی حکومت کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ مناسب حد تک کرنسی کی قدرکومستحکم رکھے۔ چنانچہ الموسوعۃ الفقہیۃ میں مرقوم ہے : من المصالح العامۃ للمسلمین التي یجب علی الإمام رعایتھا المحافظۃ علی استقرار أسعار النقود من الانخفاض، لئلا یحصل بذلک غلاء الأقوات والسلع وینتشر الفقر ولتحصل الطمأنینۃ للناس بالتمتع بثبات قیم ما حصلوہ من النقود بجھدہم وسعیہم واکتسابہم،لئلا تذھب ھدرا ویقع الخلل والفساد (۴۱/۱۹۶،۱۹۷) ’’مسلمانوں کے مفاداتِ عامہ جن کا تحفظ امام کی ذمہ داری ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ زر کی قیمتوں میں ثبات پیدا کرے تاکہ اس سے خوراک اور اشیا کی قیمتیں نہ بڑھیں اور غربت میں اضافہ نہ ہو۔ اور لوگ اپنی محنت اور کوشش سے حاصل کئے گے زر سے فائدہ اُٹھانے کے متعلق مطمئن ہوں تاکہ وہ زر رائیگاں نہ جائے اور خلل اور فساد واقع نہ ہو۔‘‘ مشہور محدث امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : والثمن ہو المعیار الذي بہ یعرف تقویم الأموال فیجب أن یکون محدودًا مضبوطًا لایرتفع ولاینخفض إذ لو کان الثمن یرتفع وینخفض کالسلع لم یکن لنا ثمن نعتبر بہ المبیعات بل الجمیع سلع وحاجۃ الناس إلی ثمن یعتبرون بہ المبیعات حاجۃ ضروریۃ عامۃ وذلک لا یمکن إلا بسعر تعرف بہ القیمۃ وذلک لا یکون إلا بثمن تقوم بہ الأشیاء ویستمر علی حالۃ واحدۃ ولا یقوم ہو بغیرہ إذ یصیر سلعۃ یرتفع وینخفض فتفسد معاملات الناس ویقع الخلف ویشتد الضرر (اعلام الموقعین:۲/۱۵۶) ’’زر ہی وہ معیار ہے جس کے ذریعے اموال کی قیمتوں کی پہچان ہوتی ہے لہٰذا یہ ضروری ہے |