سے اس بات کی دلیل پکڑی ہے کہ ایک ایسی جماعت کے امیرکے لیے بھی عام مسلمانوں سے بیعت لینا جائز ہے جو کسی اسلامی ریاست میں خلافت یا امامت کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہی ہو جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں اپنی امامت یا حکومت کے قیام سے پہلے مکہ مکرمہ میں عام مسلمانوں سے بیعت لیتے رہے یا پہلی مرتبہ یثرب (مدینہ منورہ) کے چھ افراد نے عقبہ کے مقام پر بیعت کی تھی جس کا جواب یہ ہے کہ یہ بیعت ِاسلام تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مدینہ منورہ کے ان چھ افراد کی اس بیعت کو بیعت عقبہ اُولی شمار نہیں کرتے بلکہ اگلے سال ۱۲/افراد کی بیعت کو بیعت ِعقبہ اولیٰ کہتے ہیں جس کے بعد ۷۳/افراد کی بیعت کو عقبہ ثانیہ سے موسوم کرتے ہیں ،کیونکہ یہ دونوں بیعتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ کی سیادت کی تمہید تھیں ۔اس لیے گویا ان دونوں بیعتوں کی بنا پر آپ کو إمام بِالْقُوَّۃ تسلیم کر لیا گیا۔ بیعت ِعقبہ اولیٰ اور ثانیہ جس کا تذکرہ اکثر احادیث میں ملتا ہے، وہ نبوت کے ساتھ امارت کی بیعت بھی ہے۔ بیعت ِعقبہ اولیٰ و ثانیہ امارت ہی کی بیعت تھیں جو کہ آپ نے مسلمانوں کے امام ہونے کی حیثیت سے لی تھی اور ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ اگر کوئی شخص مسلمانوں کے امیر یا خلیفہ ہونے کا دعویٰ کرے اور امارت ِشرعیہ کے قیام کے لیے کوشاں ہوتو وہ اپنی جماعت کے اراکین سے بیعت لے سکتا ہے۔ اس لیے بیعت صرف ایسے فرد کی کی جائے گی جس کا سیاسی اقتدار کسی محدود یا غیر محدود علاقے میں بالفعل یا بالقوۃ قائم ہو جائے |