کے الفاظ ہیں : من أطاعني فقد أطاع اللّٰه ومن عصاني فقد عصی اللّٰه ومن أطاع أمیري فقد أطاعني ومن عصٰی أمیري فقد عصاني (صحیح مسلم:۱۸۳۵) ’’جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی، اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔‘‘ غور طلب بات ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانے میں دعوت و تبلیغ یا جہاد و قتال کے لیے مختلف لشکر بھیجتے یا کسی علاقے کی طرف کسی صحابی کو گورنر بناکر بھیجتے تھے توان لشکروں کے اُمرا یا علاقوں کے گورنروں کی سمع و طاعت تو ہوتی تھی لیکن ان کی بیعت نہ ہوتی تھی کیونکہ بیعت تو صرف امام کی ہے اور اما م ایک علاقے میں ایک ہی ہوتا ہے ۔ اگر ان گورنروں نے بیعت لینی بھی ہوتی تھی تواپنے امام یا امیر المؤمنین کی بیعت لیتے تھے، جیساکہ تاریخی آثار وکتب سے واضح ہوتا ہے۔ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں : إذا خرج ثلثۃ في سفر فلیؤمروا أحدھم (سنن ابو داؤد:۲۶۰۹) ’’جب بھی تین افراد کسی سفر میں نکلیں تو اُنہیں چاہیے کہ وہ اپنے میں سے ایک کو امیر بنا لیں ۔‘‘ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ہر حال میں جماعتی زندگی کو پسند کرتا ہے، اگر کسی جگہ مسلمانوں کا بڑا نظم امارت خود کنٹرول نہ کر رہا ہو مثلاًسفر کی حالت تو وہاں مسلمانوں کو عارضی نظم امارت قائم کر لینا چاہیے ۔اسی طرح کسی ذیلی مخصوص مقصد کے حصول کے لیے بھی جماعت بنائی جا سکتی ہے لیکن سفری یا کسی خاص مقصد کے حصول کے لیے بنائی جانے والی عارضی جماعت کے امیر کی بیعت نہیں ہوگی،بیعت صرف الجماعۃ کے امیر کی ہوگی ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت سے جتنی بھی بیعتیں لیں ، وہ دو طرح کی ہیں : ایک بیعت ِنبوت جس کے مغالطے میں بیعت ِتوبہ یابیعت ِتزکیہ وارشاد کو ہمارے صوفیا نے پیری مریدی کی بیعت کا نام دے رکھا ہے اور دوسری بیعت ِامارت جس کے تابع بعض عسکری |