یاوہ شخص لے سکتا ہے جو کسی خاص علاقے میں الجماعۃ کے امام ہونے کا دعویٰ کرے جیسا کہ حضر ت حسین رضی اللہ عنہ ، حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ،سید احمد شہید بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اور ملا محمدعمرنے بیعت لی تھی ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ امامت ِصغریٰ مثلاًنماز کا امام یا کسی عارضی و محدود جماعت مثلاً سفری جماعت کے امیر کے لیے احادیث میں سمع و طاعت کا ذکر تو ملتا ہے لیکن ایسے امام یا امیر کے لیے بیعت ثابت نہیں ہے۔مثلاً سفر کی حالت میں جو جماعت بنتی ہے، اس کے امیر کی سمع و طاعت تو ہوتی ہے لیکن بیعت نہیں ہوتی۔ اسی طرح نماز کا جو امام ہوتا ہے، اس کی اقتدا تو ہوتی ہے لیکن بیعت نہیں ہے ۔علاوہ ازیں ہم دیکھتے ہیں کہ عصر حاضر میں کسی بھی ادارے میں ملازمت کرنے والا فرد ایک معاہدۂ ملازمت پر عمل در آمد کرتے ہوئے اپنے افسر(Boss) کی سمع و طاعت تو کرتا ہے، لیکن اس کی بیعت نہیں کرتا۔لہٰذا اگر محدود مقاصد کے لیے بننے والی جماعتوں اور انجمنوں کے اُمرا بھی بیعت لینا شروع کر دیں گے تو پھر اسلامی معاشرے میں بہت سی ایسی جماعتیں وجود پذیر ہوں گی کہ جن کے اراکین اپنے امرا سے بذریعہ بیعت یہ معاہدہ کر رہے ہو ں گے کہ وقت آنے پر وہ اپنے امیر کے حکم پر اپنی جان اور مال قربان کریں گے اور ان کے اُمرا جواباً ان کو سورۃ توبہ کی آیات سنا کر جنت کے ٹکٹ بانٹ رہے ہوں گے اور یہ جماعتیں آپس میں ایک دوسرے سے بھی لڑ رہی ہوں گی۔ اسی لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک علاقے میں ایک سے زائد افراد کی بیعت سے منع کیاہے اور یہ حکم دیا کہ پہلے کی بیعت کوبرقرار رکھاجائے اور بیعت کے دوسرے مدعی کو قتل کردیا جائے۔لیکن اس کے برعکس آپ نے ایک ہی علاقے میں الجماعۃکے علاوہ ایک سے زائد محدود یا عارضی جماعتوں کے وجوداور ان کے نظم امارت سے منع نہیں کیا٭ جیسا کہ ایک حدیث _______________ ٭ الجماعۃکے تحت محدود تنظیموں کا مسئلہ کئی پہلوؤں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر وہ تابع امیر یا گروہ ہو تو وہ الجماعۃ کے نظم کا ہی حصہ ہو گا اور اگر وہ محدود فکری اور رفاہی انجمنوں (NGOs)کی شکل ہو گی کہ اس کے لیے بنیادی اجازت اور نظم کی تشکیل بھی الجماعۃکے نظم کے تابع ہو گی تو پھر بھی معاملہ وہی ہے ۔مذکورہ بالا حدیث میں أمیري کے الفاظ خلیفہ کے تابع امیر کا مفہوم پیش کر رہے ہیں ۔ البتہ تمدنی ارتقا نے جو مختلف نظاموں کو دنیا کے سامنے رکھا ہے، اس میں سیاسی جماعتوں کا وجود شرعی طور پر غور طلب ہے جس کے لیے ایک مستقل مقالے کی ضرورت ہے۔ (محدث) |