Maktaba Wahhabi

65 - 79
بیعت اور نظم جماعت میں فرق نظم جماعت اور بیعت میں فرق ہے مثلاً الجماعۃ کا نظم جماعت تو امیر کی’سمع وطاعت‘ہے جیسا کہ احادیث میں آیا ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا ان کا نائب(خلیفہ) اس نظم جماعت کی پابندی کروانے کے لیے اپنے مامورین سے ایک خاص طریقے سے جو وعدہ لیتاہے، وہ بیعت کہلاتا ہے ۔یہ بات ذہن میں رہے کہ مسلمانوں کے باہمی معاہدات اور بیعت میں بھی فرق ہے، ایک عام معاہدہ تو کوئی مسلمان کسی سے کسی وقت بھی کر سکتا ہے جب تک کہ وہ قرآن و سنت کے منافی نہ ہویا اس سے مسلمانوں کے اما م سے کیے گئے وعدے یعنی بیعت کی خلاف ورزی لازم نہ آتی ہو،لیکن معاہدۂ بیعت ذاتی قسم کے تمام باہمی معاہدات سے بلند تر جان ومال کے سودے کی صورت ہوتی ہے۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : فیما أخذ علینا أن بایعنا علی السمع والطاعۃ في منشطنا ومکرھنا وعُسرنا ویُسرنا وأثرۃ علینا وأن لا ننازع الأمر أھلہ إلا أن تروا کفرًا بواحا عندکم من اللّٰه فیہ برھان (صحیح مسلم :۱۷۰۹) ’’ہم سے جو معاہدے لیے گئے، ان میں ایک یہ تھا کہ ہم نے ہر حال میں سمع و طاعت کی بیعت کی، چاہے ہم پسند کریں یا ناپسند؛ تنگی میں ہوں یا آسانی میں ، چاہے ہمارے اوپر کسی دوسرے کو ترجیح دی جائے، اور ہم نے اس بات پر بیعت کی کہ ہم اپنے اُمرا سے جھگڑا نہیں کریں گے سواے اس کے کوئی امیر صریح کفر کا مرتکب ہواور اس کے کفر پر کوئی واضح دلیل ہمارے پاس موجود ہو جسے ہم اللہ کے ہاں پیش کر سکیں ۔ ‘‘ اس روایت میں الجماعۃ کا جو نظم بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ خوشی ہو یا ناراضگی‘تنگی ہو یا آسانی ‘ہر حال میں امیر کی اطاعت کی جائے گی اور اس سے کسی معاملے میں بھی جھگڑا نہیں کیاجائے گا۔یہ نظم جماعت جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں الجماعۃ کے علاوہ کسی محدود جماعت یا انجمن کے لیے بھی اختیار کیا جاسکتا ہے لیکن اس نظم پر عمل پیرا ہونے کے لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا ان کے خلفا نے جو بیعت لی ہے، وہ بیعت کسی محدود جماعت کا امیر یا انجمن کا صدر نہیں لے سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیعت صرف الجماعۃ کے امام کے لیے خاص ہے
Flag Counter