Maktaba Wahhabi

64 - 79
ہیں ۔جو لوگ امامت ِکبریٰ ہو یا صغریٰ کے لیے شرع میں اُصولی تعلیمات اور طریق کار کی پابندی کے قائل ہیں ، وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہر نظم کااساسی نظام شریعت نے ایک ہی رکھا ہے لہٰذاان اُصولوں اور مناہج کو نہیں چھوڑناچاہیے ۔البتہ جہاں امامت ِصغریٰ یا کبریٰ کا معاملہ نہ ہو بلکہ فکری،علمی اور رفاہی قسم کی سماجی انجمنیں تشکیل دیتے ہوئے اگر بعض جدید تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے معاملات کو وقتی طور پر انجام دینے کے لیے جدید نظاموں سے کچھ طریقے لے لیے جائیں تو ہماری رائے میں اس پر زیادہ سخت رویہ نہیں اختیار کرنا چاہیے۔ در اصل یہ بحث ’مصالح مرسلہ‘ کی ہے۔اس ضمن میں ’مصالح مرسلہ‘ کے بارے میں فقہاے اسلام کے ا ختلافی نقطہ ہاے نظر کے مطابق کسی وقت مناسب بحث پیش کی جا سکتی ہے ـ۔اِن شاء اللہ… تا ہم امامت ِکبریٰ میں تلزم جماعۃ المسلمین وإمامہم کے تحت شرعی نظم کے وجوب پر علماے اسلام متفق ہیں ۔ ہم اس وقت امارتِ صغریٰ کے اختلافی شرعی نظام کی بحث چھوڑتے ہوئے صرف ایک مسئلہ پر کچھ کہنا چاہتے ہیں کہ نظام کچھ بھی ہو، پہلی بات یہ ہے کہ محدود جماعت یاانجمن کے امیر کی سمع و طاعت تو ہو گی جیسا کہ نماز کے امام کی اقتدا ہوتی ہے جو محدود جماعت کا امام بھی ہوتا ہے اور اس کی سمع واطاعت بھی ضروری ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کوئی عارضی جماعت یا انجمن اپنی رکنیت کے لیے بیعت کے بغیر حلف نامہ یا معاہدہ کے ذریعے اپنے ارکان کو پابند بنا سکتی ہے کہ وہ اس جماعت یاانجمن کے امیر کی سمع و طاعت ہر صورت کریں گے۔کسی بھی نظم کی پابندی ہر تنظیم میں ہوتی ہی ہے اور شریعت کی رو سے کسی بھی جماعت یا ادارہ سے ایسا معاہدہ اس وقت تک جائز ہے جب تک کہ اس سے کسی معاملے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی لازم نہ آتی ہو۔البتہ یہ چیز ملحوظ رکھی جائے کہ سمع وطاعت کامعاہدہ افراد کے لیے الگ ہوتا ہے اور اداروں کے لیے الگ۔ اداروں کی انجمنیں دستور وضوابط وضع کر کے اپنے ارکان اور عہدہ داران کے لیے ضوابط بنا لیتی ہیں پھر افراد کے بجائے سب کے لیے ان ضوابط کی پابندی ہوتی ہے ۔
Flag Counter