سے تعاون کا حکم بھی وجوبِ کفایہ کے درجے میں ہو گاتاکہ اس محدود وعارضی تنظیم کی جدوجہد کے نتیجے میں جماعت المسلمین کا ایسا امام مقرر ہو سکے جو امامت کی شرائط پر پورا اُترتا ہواورجب اُمت ِمسلمہ اس کی قیادت پر مطمئن ہو جائے تو یہ امامت ِکبریٰ کا مقام حاصل کر لے گی۔ تب اس امام کی بیعت ِسمع وطاعت بھی ہو گی تاکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان تلزم جماعۃ المسلمین وإمامھم پر عمل ہو سکے۔ ٭ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ تمدنی ارتقا کے نتیجہ میں جدیدمعاشروں میں کچھ ایسی سیاسی اور معاشرتی تبدیلیاں ظہور پذیر ہوئی ہیں جن کے نتیجے میں عصر حاضر میں امام کا مقام انفرادی کی بجائے ایک سیاسی اجتماعیت کو دے دیا گیا ہے جسے ’ریاست‘ کہتے ہیں ۔اس عرف کی شرعی حیثیت سے قطع نظر ریاست کے نظم ونسق کی اساس آئین ودستور کو حاصل ہوتی ہے، کیونکہ صدارتی نظام ہو یا پارلیمانی کسی ملک کا صدریا وزیراعظم عارضی ہوتا ہے اور وہ نظم ونسق کے لیے ریاست کے آئین ہی کا پابند ہوتا ہے۔ اس لیے اگر کسی ریاست کا آئین یا دستور دین وشریعت سے آزاد ہو گا تو فرد کی بجائے ریاست غیر اسلامی ہو گی اور اس کے خلاف خروج جائز ہو گا۔ البتہ اگر کسی ریاست کا آئین و دستور اسلامی ہو گا تو وہ ریاست اسلامی کہلائے گی اور اس کے خلاف خروج یا مسلح بغاوت جائز نہیں ہوگی۔ ایک تیسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کسی ریاست کا دستور و آئین تو اسلامی ہو لیکن اس کے حکمران کافر کی بجائے فاسق و فاجر ہوں توایسی صورت میں ان حکمرانوں کو ہٹانے کی جدوجہد آئینی طریقہ سے کی جائے گی تاکہ عادل و منصف حکمران بر سر اقتدار آئیں اور اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق بنائے گئے آئین کی روشنی میں ریاست کے داخلی و خارجی معاملات کو چلائیں ۔ ٭ ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امامت ِکبریٰ کے قیام کی غرض سے یا کسی چھوٹی سطح پر سماجی بہبود یا فکری اصلاح کے مقاصد سے جو ادارے،انجمنیں یا اسی طرح کی دیگر تنظیمیں محدود مقاصد کے لیے بنائی جاتی ہیں ، ان کا نظم ونسق کیا اُسی انداز کا ہو گا جو احادیث میں الجماعۃکا نظم بیان ہوا ہے۔اس مسئلے کی کافی تفصیل ہے اور علمائے اسلام کی آرا بھی مختلف |