Maktaba Wahhabi

62 - 79
بواحا عندکم من اللّٰه فیہ برھان)) (صحیح مسلم:ح ۱۷۰۹) ’’ہم سے جو معاہدۂ بیعت لیا گیا، ان اُمور میں ایک یہ تھا کہ ہم نے ہر حال میں سمع و طاعت کی بیعت کرنا ہے ہم پسند کریں یا ناپسند، تنگی میں رہیں یا آسانی میں ۔ چاہے ہمارے اوپر کسی دوسرے کو ترجیح دی جائے۔ اور ہم نے اس بات پربھی بیعت کی کہ ہم اپنے امرا سے جھگڑا نہیں کریں گے، سوائے اس کے کوئی امیر صریح کفر کا مرتکب ہو، اس کے کفر پر کوئی واضح دلیل ہمارے پاس موجود ہو جسے ہم اللہ کے ہاں پیش کر سکیں ۔ ‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرکوئی حکمران دین اسلام کی بنیادی تعلیمات (جنہیں ضروریاتِ دین کہتے ہیں )میں سے قرآن و سنت میں موجود کسی ایسی صریح یا واضح تعلیم کا انکار کر دے کہ جس میں مناسب تاویل کی گنجائش موجود نہ ہو تو وہ مسلمانوں کی امامت کا اہل نہیں رہتا۔ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : فلو طرأ علیہ الکفر وتغیر الشرع أو بدعۃ خرج عن حکم الولایۃ وسقطت طاعتہ ووجب علی المسلمین القیام علیہ وخلعہ ونصب إمام عادل إن أمکنھم ذلک (شرح نووی صحیح مسلم:۶/۳۱۴) ’’پس اگرحکمران کافر ہو جائے یا شریعت کو تبدیل کر دے یا کسی بدعت کا مرتکب ہو تو وہ مسلمانوں کی حکمرانی سے محروم ہو جاتا ہے او ر مسلمانوں کے لیے اس کی اطاعت باقی نہیں رہتی بلکہ مسلمانوں پر یہ واجب ہوجاتا ہے کہ وہ اس حکمران کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں اور اس کومعزول کر کے اس کی جگہ ایک عادل امام (حکمران) کو لے کر آئیں بشرطیکہ وہ ایسا کرنے کی طاقت رکھتے ہوں ۔‘‘ شرعاً موزوں امام کے حصو ل کے لئے جدوجہد لہٰذا مسلمانوں پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنا کوئی ایسا امام مقرر کریں جو امامت کی بنیادی شرائط پر پورا اُترتا ہو۔ اگر اس امام کے تقرر کے لیے کسی اجتماعی جدو جہد کی ضرورت ہے توتنظیم بھی بنائی جا سکتی ہے۔ اس غرض سے تنظیم بنانے اور اس میں شمولیت کا حکم فرضِ کفایہ کا ہو گا کیونکہ اگر امام کی تقرری کسی اجتماعی جدوجہد کے بغیر ممکن ہی نہ ہو تو پھر اس جماعت کا بنانا فقہی اُصول مالا یتم الواجب إلا بہ فھو واجب کے تحت فرضِ کفایہ ہو گا اور ایسی جماعت
Flag Counter