نہیں ہے کیونکہ جو اس وقت مسلمانوں کے نام نہادعام حکمران موجود ہیں وہ امامت کی بنیادی اہلیت پر پورا نہیں اُترتے ۔آپ کا ارشاد ہے : 1. (( خیار أئمتکم الذین تحبونھم ویحبونکم ویصلون علیکم ویصلون علیہم وشرار أئمتکم الذین تبغضونھم ویبغضونکم وتلعنونھم ویلعنونکم))۔قیل یا رسول اللّٰه ! أفلا ننابذھم بالسیف؟ فقال: ((لا۔ ما أقاموا فیکم الصلاۃ)) (صحیح مسلم: ح۱۸۵۵) ’’تمہارے بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے، تم ان کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہو اور وہ تمہارے لیے۔ اور تمہارے بدترین حکمرن وہ ہیں جن سے تم نفرت کرتے ہو اور وہ تم سے نفرت کرتے ہیں ،تم ان پر لعنت بھیجتے ہو اور وہ تم پر۔کہا گیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا ہم ان کو تلوار سے ہٹا نہ دیں تو آپ نے فرمایا:تمہیں ایسا کرنے کی اس وقت تک اجازت نہیں جب تک وہ تمہارے درمیان نماز کا نظم قائم کرتے رہیں ۔‘‘ یہ حدیث اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ اگر حکمران خود نماز کا پابند نہ ہویا مسلمانوں میں نماز کا نظم قائم نہ کرے تو مسلمانوں کی امامت کا اہل نہیں ہے اور مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اس امام کو معزول کردیں ۔ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : 2. أجمع العلماء علی أن الإمامۃ لاتنعقد للکافر وعلی أنہ طرأ علیہ الکفر انعزل قال وکذا لو ترک إقامۃ الصلوات و الدعاء الیہ (شرح نووی : ۶/۳۱۴) ’’مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ کافر کبھی مسلمانوں کا امام (حکمران) نہیں بن سکتا اور اگر کوئی مسلمان امام کافر ہو جائے تو وہ امامت سے معزول ہو جائے گااور اسی طرح اگر وہ نماز قائم کرنا اور اس کی طرف لوگوں کو بلانا چھوڑ دے تو پھر بھی معزول ہو جائے گا۔‘‘ 3. ایک دوسری روایت میں ایسے امام کے لیے جو امامت کا اہل نہیں ہے، ’کفر بواح‘ کے الفاظ بھی آئے ہیں ۔حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : فیما أخذ علینا أن بایعنا علی السمع والطاعۃ في منشطنا ومکرھنا وعسرنا ویسرنا وأثرۃ علینا وأن لا ننازع الأمر أھلہ ((إلا أن تروا کفرا |