البتہ اگرمسلمانوں کاکوئی حکمران ان کو کسی ایسی جگہ جان و مال کھپانے کا حکم دے جہاں اللہ تعالی کی معصیت لازم آتی ہو تو اس معاملے میں حکمران کی سمع و طاعت نہیں ہو گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((علی المرء المسلم السمع والطاعۃ فیما أَحَبَّ وکَرِہَ إلا أن یؤمر بمعصیۃ فإن أمر بمعصیۃ فلا سمع وطاعۃ)) (صحیح مسلم: ح۱۸۳۹) ’’ایک مسلمان پر سمع و طاعت ہر معاملے میں لازمی ہے چاہے وہ اسے پسند ہو یا نہ ۔ الا یہ کہ اسے اللہ کی نافرمانی کا حکم دیا جائے۔ پس اگر کسی مسلمان کو اللہ کی نافرمانی کاحکم دیا جائے تو پھراس پر (حکمران کی)سمع و طاعت واجب نہیں رہتی ۔‘‘ معلوم ہوا کہ حکمران کے لیے سمع وطاعت کی بیعت مطلق نہیں ہوتی بلکہ یہ سمع و طاعت معروف (دین وشریعت) کی شرط کے ساتھ مقید ہے۔ ٭ اب تک کی بحث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ 1. معاہدہ بیعت اللہ اور اس کے بندوں کے مابین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے ہوتا ہے۔ 2. بعد میں یہ معاہدۂ بیعت نبی کے بطورِ حکمران نائب کی حیثیت سے الجماعۃ کے امیر یعنی حکمران سے ہوتا ہے۔ 3. ایک علاقے میں ایک ہی امیر کی بیعت کی جاسکتی ہے، بعد میں بیعت لینے والے دوسرے امیر کو قتل کردینا چاہئے۔ 4. امیر اگر بعض کام غلط بھی کرے تو ان باتوں کو غلط سمجھنے کے باوجود اس کی اطاعت سے ہاتھ کھینچنا جائز نہیں البتہ معصیت کے کاموں میں خود امیر کی اطاعت کرنا درست نہیں ۔ مذکورہ بالا احکام تو الجماعۃ کے حوالے سے ہیں ، البتہ کیا مسلمانوں میں اس کے علاوہ کوئی نظم قائم نہیں کیا جاسکتا اور الجماعۃ، ایک عام جماعت یا انجمن میں کیا فرق ہے؟ یہ موضوع ابھی وضاحت طلب ہے ۔ احادیث میں الجماعۃ سے مسلمانوں کا نظم اجتماعی ہی مراد ہے! اَحادیث میں مسلمانوں کو التزامِ جماعت کا جو حکم دیا گیا ہے، اس سے مراد کوئی محدود |