پھر اُنہوں نے یہ مکتوب لیا اور ہر شخص سے باری باری یہ کہا:اے فلاں ! کیاتم اس بات کا اقرار کرتے ہو؟ یہاں تک کہ میری باری آگئی اور اُنہوں نے کہا:اے لڑکے! تم بھی اقرار کرتے ہو؟ میں نے کہا:نہیں ۔ کہنے لگے: اس لڑکے کے بارے میں جلد بازی نہ کرو، پھر مجھ سے پوچھا: بچے ! تم کیا کہنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: اللہ نے اپنی کتاب میں مجھ سے ایک عہد لیا ہے اور میں اس عہد کے بعد کسی اور عہد کا پابند نہیں ہوں ۔‘‘ یہ سننا تھا کہ تمام کے تمام لوگ اس عہد نامے سے رجوع کرگئے، کسی ایک نے بھی اقرار نہ کیا۔میں نے مطرف سے پوچھا: تمہاری تعداد کیا تھی؟ بولے: ’’تیس کے قریب آدمی تھے۔‘‘ (بحوالہ عربی کتابچہ: ’’بیعت،سنت و بدعت کے مابین‘‘ از شیخ علی حسن ) امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ کو بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے۔ وہ ایک فتویٰ کے ضمن میں کہتے ہیں : ’’اگر لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور بر وتقویٰ پر تعاون کرنے پر جمع ہوں تو بھی ہر شخص دوسرے شخص کے ساتھ ہر بات میں معاون نہ ہوگا بلکہ صرف اس حد تک جہاں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہوگی، اگر اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی ہورہی ہو تو وہ ساتھ نہ دے گا، یہ لوگ سچائی، انصاف، احسان، امربالمعروف، نہی عن المنکر، مظلومین کی مدد اور ہر اس کام میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہیں ۔ وہ نہ ظلم کرنے پر، نہ کسی جاہلی عصبیت پر، نہ ہی خواہشات کی پیروی پرتعاون کریں گے، نہ ہی فرقہ بازی اور اختلاف پر، اور نہ ہی اپنی کمر کے گرد پیٹی باندھ کر کسی شخص کی ہر بات ماننے پر تعاون کریں گے اورنہ ہی کسی ایسے حلف نامے میں شریک ہوں گے جو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف ہو۔‘‘ ’’ان میں سے کسی شخص کے لئے جائز نہیں کہ اپنے یا کسی دوسرے کے استاد کی خاطر اپنی کمر کے گرد پیٹی باندھے اور جیسے سوال میں پوچھا گیا ہے، کسی ایک معین شخص کے لئے پیٹی باندھنا یا اس کی طرف نسبت کرنا، جاہلیت کی بدعات میں سے ہے اور ان حلف ناموں کی مانند ہے جواہل جاہلیت کیا کرتے تھے یا قیس و یمن کی فرقہ بازیوں کی طرح ہے۔ اگر اس کے باندھنے سے مراد بر و تقویٰ پر تعاون ہے تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر کسی ایسے بندھن کے اس |