Maktaba Wahhabi

50 - 79
وہاں تمام لوگوں پر اس کی بیعت لازم ہے۔ بیعت نہیں کریں گے تو بموجب ِحدیث ِمذکور جاہلیت کی موت مریں گے۔ لیکن اگر ایسا خلیفہ سرے سے موجود ہی نہ ہو تو پھر بیعت کا محل نہ ہونے کی بنا پر یہ حکم بھی ساقط ہوجائے گا، اور ایسے ہی وہ لوگ جو ایک خلیفہ کے دائرۂ اقتدار سے خارج رہتے ہوں ، اُن کے لئے بھی ایسے خلیفہ کی بیعت لازم نہ ہوگی۔ ۱۹۲۴ء میں خلافت ِعثمانیہ کے ختم کئے جانے کے بعد اوّل تو مسلم ممالک پر استعمار کاغلبہ ہوگیا، خود ہندوستان بھی سو ڈیڑھ سو سال انگریزی استعمار کاہراول دستہ بنا رہا، جب خلیفہ ہی نہ رہا تو بیعت کس کے ہاتھ پرکی جاتی؟مسلم ممالک آزاد ہوناشروع ہوئے تو اکثر نے جمہوری یا آمرانہ نظام اپنایا، بیعت کے اُس طریقہ کو خیر باد کہہ دیا گیا جو اہل حل و عقد کی مشاورت سے منعقد ہوتی ہے، لہٰذا نظامِ بیعت بھی معطل ہوتا چلا گیا۔ اب جہاں جہاں کسی درجے میں بھی ایسا نظام قائم ہو جو کتاب وسنت کو نافذ کرتا ہو، لیکن بادشاہ کی بیعت کے بعد ہی اس کی حکومت کا آغاز ہوتا ہے۔ 4. بیعت ِاصلاح و ارشاد کا ایک ’عہدنامہ ‘ کی طرح اعتبار کیا جائے تو کیا حرج ہے؟ کیایہاں بھی یہی کہا جائے گا کہ سلف صالح میں اس کا رواج نہ تھا؟ ابونعیم اصبہانی اپنی کتاب حلیۃ الأولیاء (۲/۲۰۴) میں اپنی اسناد ذکر کرنے کے بعد مطرف بن عبداللہ بن شخیر (تابعی) کی یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ ہم زید بن صوحان کے پاس جایا کرتے تھے جو کہاکرتے تھے: ’’اے اللہ کے بندو! اکرام کرو اور (عمل میں ) خوبصورتی پیداکرو!بندے اللہ تک ان دو وسیلوں سے پہنچ سکتے ہیں : خوف اور طمع‘‘ ایک دن ہم ان کے پاس آئے تو دیکھاکہ (شاگردوں )نے ایک عبارت اس مضمون کی لکھی ہے: ’’اللہ ہمارا ربّ ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، قرآن ہمارا امام ہے، جو ہمارے ساتھ ہوگا،ہم اس کے ساتھ ہیں اور اس کے لئے ہیں ۔جو ہمارے مخالف ہوگا، ہمارا ہاتھ اس کے خلاف ہوگا اور ہم ایسا ویساکریں گے۔‘‘
Flag Counter