Maktaba Wahhabi

49 - 79
2. ’’بیعت ِاصلاح و ارشاد کو نماز کی امامت کی طرح سمجھا جائے ،یعنی امامت ِکبریٰ کے ساتھ امامت ِصغریٰ کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ امارتِ سفر کی طرح نماز کی امامت بھی نماز کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے۔جونہی امام نے ’السلام علیکم ورحمتہ اﷲ‘ کہا، مقتدی اور امام کا تعلق ختم ہوگیا۔ دوسرے یہ کہ خلیفہ وقت کی موجودگی میں کیا صرف ایک ہی نماز باجماعت کا اہتمام کیا جاتا تھا یا ہر علاقے بلکہ ہر محلے کی مسجد میں نماز نہیں ہوتی تھی؟ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بن جبل عشاء کی نماز آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتے اور پھر عوالی جاکر اہل محلہ کو نماز پڑھایا کرتے تھے۔ لیکن امامِ وقت یا خلیفہ حاضر سے بیعت کرنے کے بعد کیا ہر شہر یا ہر محلہ میں جزوی بیعت ہواکرتی تھی جو ہر مرشد اپنے لئے روارکھتا ہو؟ کم از کم خیرالقرون کے زمانہ میں تو ایسی بیعت کا نام و نشان نہ تھا۔ قرونِ ثلاثہ (زمانۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور زمانۂ صحابہ رضی اللہ عنہم ، زمانۂ تابعین رحمۃ اللہ علیہم اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم ) کے بعد جہاں فرقہ بازی کی بدعت پیدا ہوئی، وہاں تصوف کے سلسلوں کے نام پر مشائخ کے ہاتھ پربیعت اصلا ح و ارشاد کا دروازہ بھی کھول دیا گیا۔ 3. فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’جو شخص اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں طوقِ بیعت نہ تھا، وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘ (صحیح مسلم :۱۸۵۱) شریعت کے تمام احکامات استطاعت سے مشروط ہیں ۔ایک شخص حج کی استطاعت رکھتا ہو لیکن بیت اللہ تک پہنچنے کے تمام راستے مسدود ہوں ، چاہے جنگ و جدال کی بنا پر یا کسی دوسرے سبب کی بنا پر، تو ایسے شخص پر حج کرنا واجب نہ ہوگا جب تک کہ راستے کھل نہ جائیں ۔ حالانکہ ایسی ہی وعید حج پر نہ جانے والوں کے لئے بھی ہے، ایسے ہی زکوٰۃ نہ ادا کرنے والوں کو سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے، لیکن جس شخص کے پاس اتنا مال ہی نہ ہو کہ جس میں زکوٰۃ واجب ہو تو وہ زکوٰۃ دینے سے مستثنیٰ ہے۔ وضو میں ہاتھ پیر دھونے لازم ہیں ، لیکن اگر کسی کا ہاتھ یا پیر کٹا ہوا ہو تو وہ اُسے کیسے دھوئے گا؟ بعینہٖ اگر ایسا خلیفہ موجود ہو جو صاحب ِاقتدار ہو، حدود کو نافذ کرسکتا ہو، صلح و جنگ کے جھنڈے بلند کرسکتا ہو، قرآن و سنت کو نافذ کرسکتا ہو تو جہاں جہاں اس کااقتدار ہے، وہاں
Flag Counter