کام چلا لیتے ہیں ۔‘‘ (شریعت و طریقت:ص۴۳۳) 5. انہی غلط رسموں کو جائز کرنے کے لئے قرآن و سنت کی نصوص کی ایسی تاویلاتِ فاسدہ کی جاتی ہیں کہ انسان اپنا سرپکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : محمد بن طاہر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :’’پھٹے ہوئے کپڑے (مرقعہ) پہننے کے بارے میں شیخ کا مرید پرشرط رکھنا، اور بطورِ دلیل عبادۃ بن صامت کی حدیث پیش کی کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی کہ ہم تنگی اور فراخی ہر حال میں سمع و اطاعت کریں گے۔‘‘ دیکھئے کیا خوب نکتہ نکالا ہے، کہاں شیخ کا مرید پر مذکورہ شرط رکھنا اور اُسے جوڑنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت ِاسلام سے جو کہ نہ صرف لازم ہے بلکہ خود رسول کی اطاعت بھی واجب ہے۔‘‘ (تلبیس ابلیس: ص۱۹۲) 6. اگر اُمت ِمسلمہ ایک بڑے جہاز کی مانند ہے تو یہ مختلف فرقے اور طریقے چھوٹی چھوٹی کشتیوں کی مانند ہیں ۔ شدید طوفان کی صورت میں جہاز تو بچ جاتا ہے، لیکن چھوٹی کشتیاں غرقِ آب ہوجاتی ہیں ۔ تعجب ہے کہ کتاب وسنت کے جہاز کو چھوڑ کر لوگ ان بجروں (چھوٹی کشتیوں ) پر کیوں سوار ہوتے ہیں !؟ جب کہ سمندر میں تلاطم ہی تلاطم ہے اور کشتی کسی وقت بھی ڈوب سکتی ہے۔ قائلین بیعت کے شبہات اور آخر میں ان چند شبہات کا جائزہ بھی لے لیا جائے جو قائلین بیعت کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں : 1. ’’تین آدمی بھی سفر کررہے ہوں تو ایک کو امیربنانے کا حکم ہے، چہ جائیکہ پوری جماعت ہو اور اس کا امیرنہ ہو۔‘‘ سفر میں امیر بنانا توآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ثابت ہے، لیکن وہاں بیعت کاذکرنہیں ہے، اور یہ امارت سفر کے ختم ہونے کے ساتھ تمام ہوجاتی ہے۔ گویا وقتی طور پر نظم و ضبط کا پابند بنانے کے لئے ایسے امیر کی اطاعت لازمی قرار دی گئی لیکن اس کا قیاس امامت ِکبریٰ پر نہیں کیا جاسکتا جہاں دوسرے مدعی ٔامارت کو برداشت نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی گردن مار دی جاتی ہے۔ |