دیا۔ پھر شیخ الاسلام کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور فرمانے لگے کہ اپنے آپ کو کسی کے پلے باندھنا بہت ہی اچھی چیز ہے۔‘‘ (بحوالہ شریعت و طریقت از مولانا عبدالرحمن کیلانی: ص۳۰۵) سبحان اللہ !نہ شریعت پرعمل کرنے کی ضرورت نہ کتاب و سنت کا کوئی لحاظ، شیخ کی بیعت جنت کا پروانہ ہوگیا۔ اور پھر جس طرح سے یہاں کتاب و سنت کی دھجیاں اُڑائی گئی ہیں وہ بھی ملاحظہ فرمالیں ، اللہ عالم الغیب ہے، لیکن یہاں شیخ عذابِ قبر کا سارا انتظام دیکھ رہے ہیں ۔اللہ کے رسول فرشتہ جبرئیل علیہ السلام سے ہم کلام ہوتے تھے، یہاں شیخ عذاب کے فرشتوں سے مجادلہ کررہے ہیں ۔حدیث کے مطابق انبیااور صلحا کو قیامت کے دن شفاعت کاموقع دیا جائے گا، یہاں عین عذابِ قبر سے پہلے شفاعت کی جارہی ہے جو فوراً ہی اجابت کے مراحل طے کرگئی۔ جس صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو قبروں پر سے گزرنے، دونوں کوعذابِ قبر ہونے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان دونوں قبروں پر ٹہنی لگانے کا واقعہ نقل ہوا ہے اور پھرٹہنیوں کے خشک ہونے تک ان کے عذاب میں تخفیف کا ذکر ہے، اُسے ذرا ذہن میں تازہ کیجئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں الہامِ خداوندی سے دو اشخاص کے عذابِ قبر کے بارے میں بتایا گیا، وہ یقینا مسلمان تھے، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت میں داخل تھے، لیکن اُنہیں تو یہ بیعت کام نہ آئی۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا کی اور بطورِ علامت دو ٹہنیاں بھی لگائیں کہ جن کے خشک ہونے تک دونوں کے عذاب میں تخفیف کی گئی تھی۔ کیا یہ ایک قباحت ہی کافی نہیں کہ جس سے مزعومہ بیعت کی قلعی کھل جاتی ہے؟ 4. طریقت اور بیعت چونکہ لازم و ملزوم ہیں ،چنانچہ اس تعلق سے بھی نئے نئے شگوفے کھلتے رہتے ہیں ۔ مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’بیعت کے سلسلہ میں صوفیا نے ایک اور شاندار کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اُنہوں نے جب دیکھا کہ اویس قرنی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا، نہ بیعت کی، تو اُن کی ارواح کی آپس میں بیعت کرا دی اور اسے نسبت ِاُویسیہ کا نام دیا اور راستہ کی اس رکاوٹ کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا۔ وہ جب دیکھتے ہیں کہ فلاں شیخ کی فلاں شیخ سے ملاقات ہی ثابت نہیں یا پیرکی وفات کے بہت عرصہ بعد مرید کی پیدائش ہو تو وہ یہی نسبت ِاُویسیہ قائم کرکے اپنا سلسلہ جاری فرما کر |