مراد آبادی (جو میرے گمان میں مردِ صالح ہیں ) مولوی اشرف علی تھانوی کے مرید تھے۔بعد بیعت آپ مسئلہ تقلید کی تحقیق کرکے مقلد سے غیر مقلد ہوگئے مگر مولانا مرحوم کے حق میں اُنہوں نے کسی قسم کی بدگمانی نہیں کی۔ اس پر بھی مولانا کا ایک پوسٹ کارڈ (جو میں نے بچشم خود دیکھا ہے) موصوف کو پہنچا جس کا مضمون یہ تھاکہ غیر مقلد ہوجانے کی وجہ سے میں تم کو اپنے حلقہ بیعت سے خارج کرتا ہوں ۔ اب میرا تمہارا پیری مریدی کا تعلق نہیں رہا۔ (اوکما قال) ایسا کیوں ہوا؟ اس کا جواب ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔‘‘ (فتاویٰ ثنائیہ:۱/۳۵۶) 3. شیخ سے بیعت کرنا عذابِ قبر سے چھٹکارا دلاتا ہے، پہلے یہ واقعہ پڑھئے اور پھر تبصرہ ملاحظہ کیجئے : ’’شیخ الاسلام خواجہ فرید الدین احمد نے فرمایا کہ اُن کے داداپیر شیخ معین الدین حسن سنجری چشتی اجمیری قدس سرہ العزیز کی یہ رسم تھی کہ جو کوئی ہمسایہ میں سے اس دنیا سے نقل (انتقال) کرتا، اس کے جنازہ کے ساتھ جاتے اور خلق کے لوٹ جانے کے بعد اس کی قبر پر بیٹھتے اور جو درود، کہ ایسے وقت میں پڑھتے آئے ہیں ، پڑھتے۔ پھر وہاں سے آتے۔چنانچہ اجمیر میں آ پ کے ہمسایوں میں سے ایک نے انتقال کیا۔دستور کے مطابق آپ جنازہ کے ساتھ گئے، جب اُسے دفن کرچکے، خلق لوٹ آئی اور خواجہ وہیں ٹھہر گئے اور تھوڑی دیر کے بعد آپ اُٹھے۔ شیخ الاسلام قطب الدین فرماتے ہیں کہ میں آپ کے ساتھ تھا۔ میں نے دیکھاکہ دم بدم آپ کا رنگ متغیر ہوا، پھر اسی وقت برقرار ہوگیا۔ جب آپ وہاں سے کھڑے ہوئے تو فرمایا:الحمدﷲ! بیعت بڑی اچھی چیز ہے۔‘‘ شیخ الاسلام قطب الدین اوشی نے آپ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ جب لوگ اس کو دفن کرکے چلے گئے تھے تو میں بیٹھاہوا تھا۔میں نے دیکھا کہ عذاب کے فرشتے آئے اورچاہا کہ اس کو عذاب کریں ، اسی وقت شیخ عثمان ہارونی (آپ کے پیر، م۶۳۴ھ) قدس سرہ العزیز حاضر ہوئے اور کہا کہ یہ شخص میرے مریدوں میں سے ہے۔ جب خواجہ عثمان نے یہ کہا تو فرشتوں کو فرمان ہوا کہ کہو: ’’یہ تمہارے برخلاف تھا۔‘‘ خواجہ نے فرمایا: بے شک اگرچہ برخلاف تھا مگر چونکہ اس نے اپنے آپ کو اس فقیر کے پلے باندھا تھا، تو میں نہیں چاہتا کہ اس پر عذاب کیا جائے، فرمان ہوا: اے فرشتو! شیخ کے مرید سے ہاتھ اُٹھاؤ، میں نے اس کو بخش |