Maktaba Wahhabi

45 - 79
یامرشد جسے کوئی اختیار حاصل نہ ہو، اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے آخر کون سافائدہ حاصل ہوسکتا ہے؟ بالفرض اگر ایک لمحہ کے لئے یہ مان بھی لیا جائے کہ لوگوں کی اصلاح کے لئے یہ طریقہ کارگر ہوسکتا ہے، تب بھی مندرجہ ذیل قباحتوں کی بنا پر اسے قبول نہیں کیا جاسکتا : 1. ﴿وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن﴾ (الانعام :۱۵۳) ’’اور یہ دین میرا راستہ ہے جومستقیم ہے، سو اس راہ پر چلو اور دوسری راہوں پرمت چلوکہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی۔ اس کا تم کو اللہ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگاری اختیار کرو۔‘‘ 2. اور فرمایا: ﴿وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ ھُمُ الْبَیِّنٰتُ وَ اُولٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ (آل عمران:۱۰۵) ’’تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آجانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا اور اختلاف کیا۔ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔‘‘ اُمت ِمسلمہ میں ایک طرف مذہبی فرقہ بندی شروع ہوگئی تھی تو دوسری طرف طریقت کے نام پربے شمار سلسلے وجود میں آگئے اور پھرہرسلسلہ ایک مستقل فرقہ اور جماعت بنتی گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے توناجی جماعت کی نشانی یہ بتائی تھی: (( ما أنا علیہ وأصحابي)) ’’جس پر میں ہوں اورمیرے صحابہ‘‘ لیکن اس کے بالکل برعکس ہر صاحب ِسلسلہ اور ہر وہ جماعت جو بیعت کی بنیاد پرکھڑی ہوتی ہے، اپنے طرزِعمل سے یہ کہہ رہی ہوتی ہے: ’’ما أنا علیہ وسلسلتي أو حزبي‘‘ ’’یعنی جس پر میں ہوں اور میرا طریقہ یا میری جماعت۔‘‘ چنانچہ اس سلسلہ یا جماعت کو چھوڑنے کا مطلب ہے کہ گویا وہ شخص اسلام سے خارج ہوگیا ہے۔ یہاں مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر کردہ ایک واقعہ پیش کرتا ہوں جو ان کے جریدہ ’اہل حدیث‘ امرتسر کے شمارہ ۱۷/ مارچ ۱۹۲۴ء میں شائع ہوا تھا، لکھتے ہیں : ’’یہاں پر ایک واقعہ بلاکم و کاست ناظرین کے سامنے رکھتا ہوں ۔ حافظ عزیز الدین صاحب
Flag Counter