کی گردن مارنے کا حکم دیا گیاہے۔ اور یہ اس لئے ہے کہ اسلامی مملکت میں بدامنی کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اور یہ تب ہی ممکن ہے جب خلیفہ کے پاس مکمل اقتدار ہو، وہ حدود نافذ کرسکتا ہو، جنگ اور صلح کے معاہدے کرسکتا ہو۔ 6. خلیفہ کے ہوتے ہوئے اس کی اطاعت نہ کرنا اورجماعت سے خروج کرنا قابل مؤاخذہ جرم ہیں اور ایسے آدمی کی موت جاہلیت کی موت ہے اور ایسے ہی اُن لوگوں کی بھی جو کسی مذموم عصبیت (برادری، قومیت، زبان، رنگ اور پارٹی) کی بنا پر قتل و قتال پر آمادہ ہوجائیں ۔ بنی اُمیہ کے دور کے بعد جب بنی عباس سریر آراے خلافت ہوئے، لیکن اندلس جیسے دور دراز علاقہ میں بنی اُمیہ کے امرا نے اپنی حکومت قائم کرلی، تو علماے امت نے فتنہ و فساد کا دروازہ بند کرنے کے لئے اس بات پر اتفاق کیا کہ ایک وقت میں دور دراز کے علاقوں میں دو علیحدہ علیحدہ خلافتیں ہوسکتی ہیں ۔ اور پھر اس اُصول کے تحت، بعد کے ادوار میں ، خراسان اور ہندوستان کی مملکتیں بھی برداشت کی گئیں ۔ 7. صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس شخص کی بیعت نہیں کی جس نے خلیفہ وقت کے خلاف خروج کیا ہو۔ اس تمام تفصیل سے یہ تو واضح ہوگیا کہ بیعت کا دائرہ ’امامت ِکبریٰ‘ تک محدود ہے، ایسے امام کی بیعت ہی کی جاسکتی ہے جو واقعی اقتدار رکھتا ہو، حدود نافذ کرسکتا ہو، صلح و جنگ کے معاہدے کرسکتا ہو۔ وہ چاہے جہاد پربیعت لے یا کسی فعل خیر پر یا کسی برائی سے رُکنے پر۔ بیعت لینا اس کا حق ہے، البتہ اگر وہ کسی غیر اسلامی کام پربیعت لینا چاہے تو اس کی بات ہرگز نہ مانی جائے گی۔ پیر و مرشد کی بیعت صوفیاے کرام کے حلقہ میں ’بیعت ِاصلاح و ارشاد‘ کے نام سے ایک نئی روایت ڈالی گئی ہے جس کا خیرالقرون میں وجود نہیں ملتا۔ اگر اس فعل کا مقصود لوگوں کی اصلاح ہے تو وہ مسجد کے منبر سے، خطیب کے خطبات سے، معلم کی تعلیم سے اوربڑے بوڑھوں کی فہمائش سے بھی حاصل ہوسکتی ہے اور ان سب سے بڑھ کر نیک لوگوں کی صحبت اس کام کیلئے ایک نسخہ کیمیا ہے۔ شریعت اپنے ماننے والوں کو کوئی ایسا حکم نہیں دیتی جوغیر ضروری اور بے فائدہ ہو، وہ شیخ |