ہوں ،جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے اور وہ یہ کہ ’’جس نے اپنا ہاتھ، حلقہ اطاعت سے ہٹا لیا تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے اس عالم میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل(عذر خواہی) نہ ہوگی، اور جوشخص اس عالم میں مرے کہ اس کی گردن میں بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔‘‘ (صحیح مسلم:۱۸۵۱) مذکورہ بالا آیات و احادیث سے یہ باتیں معلوم ہوئیں : 1. اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پربیعت کسی دوسرے خلیفہ یا امام کی بیعت سے مختلف ہے،اورآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت گویا اللہ سے بیعت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ میں جب انصارِ مدینہ سے بیعت لی تھی تو گو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اقتدار نہ تھا، لیکن بحیثیت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیعت لی تھی، اور یہ بھی ایک خاص مقصد کے لئے تھی کہ جب آپ مدینہ پہنچ جائیں گے توانصار آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری پوری حفاظت کریں گے ۔ 2. مدینہ پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلاشرکت ِغیرے اقتدار کے مالک تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مختلف مواقع پر سمع و اطاعت کی بیعت لی، اور بعض مواقع پر خاص خاص باتوں پربیعت لی۔ حدیبیہ کے مقام پرجب یہ افواہ پھیلی کہ مکہ والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پندرہ سو رفقا سے اس بات پر بیعت لی تھی کہ وہ راہِ فرار اختیار نہ کریں گے اور دوسری روایت کے مطابق یہ بیعت موت پر تھی۔ 3. صلح حدیبیہ کے بعد جو خواتین ہجرت کرکے مدینہ آئیں یا فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئیں ، اُن سے سورہ الممتحنہ کی آیت کے مطابق چند مخصوص باتوں پر بیعت لی گئی۔ یہ عورتیں چونکہ نئی نئی مسلمان ہوئیں تھیں ، اس لئے اُن چیزوں کا خاص طور پر ذکر کیا گیا جو ایامِ جاہلیت میں عام تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تومسلم مردوں سے بھی انہی باتوں پربیعت لی تھی۔ 4. آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہر حال میں واجب ہے اور بعد کے امراء و خلفا کے لئے بھی سمع و اطاعت کی بیعت کا حکم دیاگیا ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اگر وہ گناہ کی طرف بلائیں گے تو ان کی اطاعت نہیں ہوگی۔ 5. خلیفہ کی بیعت اتنی اہم ہے کہ اگر کوئی دوسرا دعویدارِ خلافت پیدا ہوجائے تو اُس |