’’اے پیغمبر! جب مسلمان عورتیں آپ سے ان باتوں پربیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں گی، زنا کاری نہ کریں گی، اپنی اولاد کو نہ مار ڈالیں گی اور کوئی ایسا بہتان نہ باندھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑ لیں اور کسی نیک کام میں تیری حکم عدولی نہ کریں گی تو آپ اُن سے بیعت کرلیا کریں اور اُن کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کریں ۔بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے اور معاف کرنے والا ہے۔‘‘ 4. انفرادی بیعت __ عمروبن العاص رضی اللہ عنہ اپنے اسلام لانے کا واقعہ بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں : ’’جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈال دی تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے کہا: اپنا دایاں ہاتھ پھیلائیے تاکہ میں آپ کی بیعت کرسکوں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ پھیلا دیا، لیکن میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: عمرو! کیا ہوا؟ میں نے کہا: میں ایک شرط رکھنا چاہتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:کون سی شرط؟ میں نے کہاکہ اللہ میری مغفرت فرمائیں ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام لانے سے پچھلے (تمام گناہ)ختم ہوجاتے ہیں اور ایسا ہی ہجرت کرنے اور حج کرنے سے جو کچھ پہلے کیا تھا، سب معاف ہوجاتا ہے؟‘‘ (صحیح مسلم:۱۲۱) بیعت سے متعلق چند دیگر احادیث بھی ملاحظہ ہوں : 1. حاکم وقت کی اطاعت کا عہد عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان باتوں پر بیعت کی: ’’آپ کی سمع و اطاعت کریں گے چاہے تنگی کا عالم ہو یا فراخی کا، چاہے پسندیدہ بات ہو یاناپسندیدہ، چاہے ہمارے اوپر کسی کو ترجیح ہی کیوں نہ دی گئی ہو، اس شرط کے ساتھ کہ ہم صاحب ِامر کے ساتھ جھگڑانہیں کریں گے، اور یہ کہ ہم جہاں کہیں ہوں حق بات کہیں گے اور اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہ کریں گے۔‘‘ (صحیح بخاری:۷۱۹۹،صحیح مسلم:۱۷۰۹، سنن نسائی:۴۱۶۰) ابن کثیر نے البدایۃ والنھایۃ میں ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بیعت وہ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے آنے والوں سے مقامِ عقبہ (منیٰ) میں لی تھی: ’’اور یہ کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم یثرب آئیں تو ہم ان کی مدد کریں گے اور جس طرح ہم اپنی جانوں ، |