Maktaba Wahhabi

37 - 79
معہا، فقیل: إحدی وأربعون رکعۃ، وقیل: تسع وثلاثون، وقیل: تسع وعشرون، وقیل ثلاث وعشرون، وقیل: تسع عشرۃ، وقیل: ثلاث عشـرۃ، وقیل: إحدٰی عشرۃ، وقیل: غیر ذلک، وأرجح ھذہ الأقوال أنہا إحدی عشرۃ أوثلاث عشرۃ لما في الصحیحین عن عائشۃ رضی اللّٰه عنہا… وعن ابن عباس رضی اللّٰه عنہما قال: کانت صلاۃ النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ثلاث عشرۃ رکعۃ، یعنی من اللیل (رواہ البخاري) وفي الموطأ عن السائب بن یزید رضی اللّٰه عنہ قال: أمر عمر بن الخطاب رضی اللّٰه عنہ أبي بن کعب وتمیم الداري أن یقوما للناس بـإحدی عشرۃ رکعۃ‘‘ (مجالس شہر رمضان: ص۱۹) ’’سلف صالحین نے نمازِ تراویح مع نمازِ وتر کی رکعات میں اختلاف کیا ہے، بعض نے اکتالیس، بعض نے اُنتالیس، بعض نے اُنتیس، بعض نے تیئس، بعض نے اُنیس، بعض نے تیرہ اور بعض نے گیارہ رکعات بیان کی ہیں اور بعض نے ان اقوال کے علاوہ دوسری تعداد بھی نقل کی ہے، لیکن ان سب اقوال میں سے سب سے زیادہ راجح گیارہ یا تیرہ رکعات والا قول ہے، کیونکہ صحیحین (بخاری و مسلم) میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے گیارہ رکعات بیان کی ہیں ، اور بخاری کی ایک اور روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے تیرہ رکعات ذکر کی ہیں ، اور موطأ امام مالک میں سائب بن یزید کا بیان ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُبی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما دونوں کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا۔‘‘ سعودی علماء کے مندرجہ بالا اقتباسات سے معلوم ہوا کہ 1. یہ علما نمازِ تراویح کی رکعات کے مسئلے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث پر اعتماد کرتے ہیں ، اور اس میں مذکور گیارہ رکعات سے وہ نمازِ تراویح کی گیارہ رکعات ہی مراد لیتے ہیں ۔ 2. مسئلہ تراویح میں افضل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ تعداد رکعات پر عمل کیا جائے، اور وہ ہے: گیارہ رکعات مع وتر 3. سعودی علما اسی بات کے قائل ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی گیارہ رکعات ہی پڑھانے کا حکم دیا تھا۔ نوٹ:شیخ ابن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ نے جو تیرہ رکعات کا ذکر کیا ہے، دراصل ان میں دو رکعات وہ ہیں جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دو مرتبہ وتر کے بعد پڑھا تھا، اور علما کا کہنا ہے کہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter