حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ اور تمیم داری رضی اللہ عنہ کوگیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے جہاں یہ اثر روایت کیا ہے، ا س کے فوراً بعد ایک دوسرا اثر بھی لائے ہیں جس کے الفاظ یہ ہیں کہ یزید بن رومان کا کہنا ہے کہ لوگ عہد ِعمر رضی اللہ عنہ میں ۲۳ رکعات رمضان میں پڑھا کرتے تھے۔ (موطا:۱/۷۳) لیکن یہ دوسرا اثر منقطع یعنی ضعیف ہے، کیونکہ اس کے راوی یزید بن رومان نے عہد ِعمر رضی اللہ عنہ کو پایا ہی نہیں ، اور اگر اسے صحیح مان بھی لیا جائے تو تب بھی پہلا اثر راجح ہوگا کیونکہ اس میں یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دو صحابیوں کوگیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا، جبکہ دوسرے اثر میں یہ ہے کہ لوگ عہد ِعمر رضی اللہ عنہ میں ۲۳ رکعات پڑھا کرتے تھے۔ توجس کام کا عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا، وہی راجح ہوگا، کیونکہ وہ سنت کے مطابق ہے۔ نوٹ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق بیس تراویح والے تمام آثار ضعیف ہیں اور ان میں سے کوئی ایک بھی صحیح ثابت نہیں ۔ خلاصۂ کلام گزشتہ مختصر بحث سے معلوم ہوا کہ نمازِ تراویح کے سلسلے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح سنت گیارہ رکعات ہے، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسی سنت کو زندہ کیا اور گیارہ رکعات کا التزام کیا۔ جہاں تک کچھ ائمہ کرام کا یہ موقف ہے کہ نمازِ تراویح گیارہ سے زیادہ رکعات بھی پڑھی جاسکتی ہے، تو یہ اس بنا پر نہیں کہ زیادہ رکعات سنت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ، بلکہ محض اس بنا پر کہ چونکہ یہ نماز نفل ہے، اور نفل میں کمی بیشی ہوسکتی ہے،اس لئے گیارہ سے زیادہ بیس یا اس سے بھی زیادہ رکعات پڑھی جاسکتی ہیں ، اور ہمارا خیال ہے کہ کم از کم اتنی بات پر تو سب کا اتفاق ہے، اختلاف صرف اس چیز میں ہے کہ سنت اور افضل کیا ہے؟ تو جب یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات ہی پڑھا کرتے تھے اور رات کی جو نفل نماز عام دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے، وہی نماز رمضان میں تراویح کہلاتی ہے، تو یقینی طور پر نمازِ تراویح کے مسئلے میں سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات ہی ہے، باقی نفل سمجھ کر کوئی شخص اگر گیارہ سے زیادہ پڑھتا ہے تو اس پر کوئی نکیر نہیں ہونی چاہئے،البتہ اسے سنت تصور نہیں کیا جاسکتا،اور اسی موقف |