اور تمیم داری رضی اللہ عنہ کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا۔‘‘ (موطأ: ۱/۷۳،مصنف ابن ابی شیبہ ۲/۳۹۱) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ 1. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان اوردیگر مہینوں میں رات کی نمازگیارہ رکعات تھی ۔ 2. یہی گیارہ رکعات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی باجماعت پڑھائیں ۔ 3. پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نمازِ تراویح کے لئے لوگوں کو جمع کیا، تو اُنہوں نے بھی دوصحابہ کرام اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ اور تمیم داری رضی اللہ عنہ کو گیارہ رکعات ہی پڑھانے کا حکم دیا ۔ تراویح ہی ماہِ رمضان میں تہجد ہے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دوران ہمیں قیام نہیں کرایا،یہاں تک کہ صرف سات روزے باقی رہ گئے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۳ کی را ت کو ہمارے ساتھ قیام کیا، اور اتنی لمبی قراء ت کی کہ ایک تہائی رات گزرگئی، پھر چوبیسویں رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام نہیں پڑھایا، پھر پچیسویں رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام پڑھایا،یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی، پھر چھبیسویں رات گذر گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام نہیں پڑھایا، پھر ستائیسویں رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا لمبا قیام پڑھایا کہ ہمیں سحری فوت ہوجانے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔‘‘ (سنن ترمذی:۸۰۶حسن صحیح،سنن ابی داود:۱۳۷۵،ابن خزیمہ: ۲۲۰۶) تواس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں نمازِ تراویح پر ہی اکتفا کیا اور اس کے بعد نمازِ تہجد نہیں پڑھی، کیونکہ سحری تک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ تراویح ہی پڑھاتے رہے، اور اگر اس میں اور نمازِ تہجد میں کوئی فرق ہوتا یا دونوں الگ الگ نمازیں ہوتیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم تراویح کے بعد تہجد پڑھتے۔لہٰذا رمضان میں تراویح ہی نمازِ تہجد ہے،اورعام دنوں میں جسے نمازِ تہجد کہتے ہیں وہی نماز رمضان میں نمازِ تراویح کہلاتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ محدثین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی (پہلی) حدیث کو کتاب التراویح میں روایت کیا ہے ،اس لئے اس سے نمازِ تہجد مراد لینا ،اور پھر اس میں اورنمازِ تراویح میں فرق کرنا قطعاً درست نہیں ۔ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیس تراویح پڑھانے کا حکم دیا تھا؟ ہم نے موطأ اور مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالے سے سائب بن یزید کا یہ اثر نقل کیا ہے کہ |