Maktaba Wahhabi

75 - 79
(Educational Method) کی اصلاح‘ کے حوالے سے اُنہوں نے فرمایا: 1. کتاب دراصل نوٹس کا مجموعہ ہوتی ہے۔ اس کی اہمیت بھی اپنی جگہ ہے مگر اصل اہمیت استاد کی ہوتی ہے۔ اگر استاد سلیم الفکر، قابل اور محنتی ہے تو وہ کسی بھی کتاب کو بہترین طریقے سے سمجھا اور پڑھا لے گا اور اگر ایسا اُستاد میسر نہ ہو تو پھر نصاب تعلیم کتنا بھی اعلیٰ کیوں نہ ہو مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ 2. مکتب ِفکر ہمیشہ اُستاد اور شاگرد کے ملنے سے بنتا ہے جو باہم مل کر ایک فکرومنہاج کو تشکیل دیتے ہیں اور پھر اس کے مطابق پورا معاشرہ ڈھلتا جاتاہے…جدید فہم قرآن کورسوں کا اصل کام تو یہ ہے کہ عصری تعلیم یافتہ طبقے کو دین آشنا بناکر حکیمانہ انداز سے ان کی صحیح دینی تربیت بھی کی جائے مگر افسوس کہ بعض متجددین نے بھی فہم قرآن کے عنوان سے دین سے نابلد لوگوں کو لو گوں کو اپناعلما بیزار الحادی لٹریچر پڑھا کر اُنہیں اپنا ہم آزاد خیال بنانے کا پروگرام شروع کررکھا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ عصری تعلیم یافتہ طبقے کو دین آشنا عالم دین بنانے کے لئے ایسا نصاب تشکیل دیا جائے جس سے اُنہیں ان کے ذہنی معیار کے مطابق خیرالقرون کے فکر و عمل کی صحیح روشنی بھی ملے۔عربی زبان کے علاوہ سنت سے وابستگی کا خصوصی رجحان شامل ہوبلکہ ان میں علمی اصطلاحات سے واقفیت کے ذریعے تحقیق و مطالعہ کی استعداد پیدا ہو جائے تا ادھورا یا کچا پن نہ رہے نیز وہ فرقہ واریت کا حصہ بننے کی بجائے براہِ راست کتاب و سنت سے مستفید ہوں ۔ 3. جہاں تک کہنہ مشق اہل علم پیدا کرنے کے لیے دینی مدارس و جامعات کا تعلق ہے تو ان کے لئے بھی ایسا نصاب وضع کرنے کی ضرورت ہے جسے پڑھ کر فارغ ہونے والے طلبہ علومِ اسلامیہ کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ زمانہ کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوں لیکن نصاب میں اضافہ کرنا اس وقت تک مفید و مؤثر ثابت نہیں ہوسکتا جب تک پہلے نصاب کی تہذیب نہ ہو۔ کانٹ چھانٹ کے بغیر نصاب میں اضافہ کرتے جانے کی مثال اس اناڑی ڈاکٹر کی ہے جو مرض کی صحیح تشخیص نہ کرسکے اورنسخہ میں بہت سی دوائیں تجویز کردے کہ کسی نہ کسی سے تو فائدہ ہوگا۔
Flag Counter