تہذیب و ثقافت محمد عطاء اللہ صدیقی بسنت ہندؤوانہ تہوار ہی ہے! مختصر تاریخی حقائق اور حوالہ جات کسی تہوار کوہندوانہ رسم ثابت کرنے کے لئے تاریخی حقائق اگر کچھ اہمیت رکھتے ہیں ، تو یہ بات تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں ہے کہ بسنت ہندوانہ تہوار ہے۔ وہ لوگ جو ان تاریخی حقائق سے چشم پوشی کرتے ہیں اور بسنت کومحض ایک موسمی اور مسلمانوں کاثقافتی تہوار کہتے ہیں ، ان کی رائے مغالطہ آمیز اور غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ ہم اس موضوع پر ایک دوسرے مضمون میں تفصیلاً بحث کر چکے ہیں ۔ (دیکھئے شمارہ محدث: فروری ۲۰۰۲ء) یہاں درج ذیل تاریخی حوالہ جات کو یکجا کردیا گیا ہے تاکہ قارئین ان مختصر حقائق کی روشنی میں بسنت کے تہوار کی حقیقی حیثیت کا فوری طور پر ادراک کرسکیں ۔ 1. ’کتاب الہند‘ ہندوانہ تہوار بسنت کے متعلق قدیم ترین مستند حوالہ معروف مسلمان ریاضی دان اور مؤرخ ابوریحان البیرونی کے ہاں ملتا ہے۔ البیرونی نے آج سے تقریبا ً ایک ہزار سال قبل ہندوستان کاسفر کیا تھا، کلر کہار ضلع چکوال کے نزدیک کٹاس کے مقام پر اس زمانے میں معروف یونیورسٹی جہاں انہوں نے ہندو فضلا و حکما اور پنڈتوں سے ہندوستانی علوم سیکھے، انہوں نے اسی مقام پر ’کتاب الہند‘ تحریر کی جس میں یہاں کے باشندگان، ہندوستانی کلچر، ہندوؤں کے رسوم و رواج، علوم وفنون اور مذہب و فلسفہ کے متعلق بیش بہا معلومات فراہم کی ہیں ۔ اس کتاب میں ’بسنت‘ کے بارے میں ان کی یہ عبارت آج بھی سند مانی جاتی ہے۔ ’’عید بسنت: اسی مہینے (یعنی بیساکھ) میں استواء ربیعی ہوتا ہے جس کا نام بسنت ہے۔ ہندو لوگ حساب سے اس وقت کا پتہ لگاکر اس دن عید کرتے ہیں اور برہمنوں کو کھانا کھلاتے ہیں ۔ |