جیٹھ کے پہلے دن جو اجتماع یعنی اماؤس کادن ہے، عیدکرتے ہیں اور نیا غلہ تبرکاً پانی میں ڈالتے ہیں ۔‘‘ (کتاب الہند، از البیرونی، ترجمہ سید اصغر علی، الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب، اردو بازار لاہور، صفحہ :۲۳۸) استواء ربیعی جو البیرونی کی عبارت میں ’عید بسنت‘ کے دن کے تعین کے طور پر استعمال ہوا ہے، کسے کہتے ہیں ؟ سورج سال میں دو مرتبہ خط استواء پر آتا ہے۔ ایک مرتبہ سردیوں کے اختتام اور بہار کے آغاز پر، اس کو ’استواء ربیعی‘ کہتے ہیں ۔ ربیع کا مطلب ہے بہار، دوسری مرتبہ گرمیوں کے اختتام اور خزاں کے آغاز پر، اسے استواء خریفی کہتے ہیں ۔ خریف بمعنی خزاں …‘‘ ( ’بسنت کیا ہے؟ از مولوی احمد حسن‘ صفحہ :۲۳) 2. ’ہندو تیوہاروں کی اصلیت اور ان کی جغرافیائی کیفیت‘ یہ منشی رام پرشادماتھر بی۔ اے کی کتاب کا عنوان ہے۔ اس کتاب کے سرورق پریہ الفاظ تحریر ہیں : ’’اس میں منطقہ حارہ، ریگستان کی صورت، بکری فصل، ہجری، اور عیسوی سنوں کی ضرورت، دعا کی قوت، اور خدا کی عجیب حکمت کا اظہار کرکے ہندؤوں کا زبردست اخلاقی اور تمدنی انتظام بیان کیا گیاہے اور ہندو تیوہاروں کی ضرورت کو ثابت کیا گیا ہے‘‘ یہ کتاب علامہ اقبال کی زندگی میں شائع ہوئی کیونکہ اس کے متعلق تعارف میں یہ لکھا گیا ہے کہ مصنف نے اس کتاب کا ایک نسخہ علامہ اقبال کو بھی بھجوایا تھا جو انہوں نے پسند فرمایا، اس کتاب پرمصنف کو بھارت مہامنڈل خطاب بھی عطا کیا گیا اور یہ کتاب ہندوستان کے پرائمری سکولوں کے نصاب میں بھی شامل رہی ہے۔ اس کتاب میں رام پرشاد لکھتے ہیں : ’’بسنت پنچمی: اب فصل کے بارآور ہونے کا اطمینان ہوچلا۔ اور کچھ عرصہ میں کلیاں کھل کر تمام کھیت کی سبزی زردی میں تبدیل ہونے لگی۔ اس لئے کاشتکار کے دل میں قدرتی امنگ اور خوشی پیدا ہوئی ہے۔ وہ زرد پھولوں کو خوش خوش لا کر بیوی بچوں کو دکھاتاہے اور پھر سب مل کر بسنت کا تیوہار مناتے ہیں اور زرد پھول اپنے اپنے کانوں میں بطور زیور لگاتے ہیں اور خدا سے دعا کرتے ہیں کہ اے پرتما ! ہماری محنت کا پھل عطاکر اور پھولے ہوئے درختوں میں پھل پیدا کر۔ ‘‘ (صفحہ:۱۰۲) |