پھوٹ پڑیں جن کی وجہ سے طبیعت نڈھال ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ حج کے بعد جب پاکستان مراجعت ہوئی تو نیم بے ہوشی کے عالم میں پایا کہ ذہنی کیفیت بھی مخدوش ہے،پھر لگاتار کئی دن تک بے ہوش رہے۔ وقفہ وقفہ بعد اس حالت میں نماز، قرآن کی تلاوت، ذکر و اذکار اور بآوازِ بلند اللہ اکبر کہتے۔ ہسپتال میں ساتھ والے مریض حیران ہوتے کہ اس بیمار کی عجیب کیفیت ہے۔ یقینا یہ خالق سے لگاؤ اور قربِ الٰہی کی ایک شکل کا اظہار تھا جو سعادت مندوں کو ہی حاصل ہوتی ہے۔ پھر بیماری کے آخری ایام میں حافظ عبدالمنان نورپوری حفظہ اللہ کا مطبوع فتاویٰ (احکام ومسائل) بازار سے منگوایا۔ اپنے مخلص دوست مولانا طاہر محمود سے بار بار کہتے کہ مجھے پڑھ کر سناؤ، حالانکہ اس وقت ان کے ہوش وحواس قائم نہ تھے۔ ساری زندگی بحرعلم میں غوطہ زن ہونے والا زندگی کے آخری لمحات میں بھی علم کی وادی میں سیرابی کا سامان ڈھونڈتے آخرت کے سفرپر روانہ ہو گیا۔ تقبل ﷲ مساعیہ الجمیلۃ ۱۹/ محرم ۱۴۲۵ھ، ۱۱ مارچ ۲۰۰۴ء، بروز جمعرات بعد نمازِ ظہر ڈیڑھ بجے جنرل ہسپتال لاہور میں وفات پائی۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔ وفات کی خبر فوری طور پرجملہ احباب تک پہنچ گئی، ان کی نماز جنازہ قلعہ والی جامع مسجد کوٹ لکھپت میں راقم الحروف نے پڑھائی۔ رات گیارہ بجے آبائی شہر پسرور کے لئے میت کی روانگی ہوئی، پھر صبح نوبجے بروز جمعتہ المبارک ایک کثیرتعداد نے نمازِ جنازہ ادا کی۔ دفن کے بعد تیسری مرتبہ قبر پر ڈاکٹر عبدالقادر گوندل کی اقتدا میں نماز ادا کی گئی۔ علاوہ ازیں غسل سے لے کر قبر میں اُتارنے تک کے فرائض ان کے محبوب رفقا قاری محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ اور مولانا طاہر محمود نے انجام دیے جو مخلصانہ محبت کی اعلیٰ مثال ہے۔ جزاہم ﷲ أحسن الجزاء۔ مرحوم کے پسماندگان میں ضعیف العمر باپ اور ایک چھوٹے علاتی بھائی عبدالمجید ہیں جو صاحب ِاولاد ہیں اور پسرور میں ہی رہائش پذیر ہیں لیکن موصوف اپنے شہر سے ہمیشہ دور رہے۔ ان کی مستقل رہائش لاہور میں رہی اور اپنے پیچھے دو بیوائیں چھوڑیں۔ ایک کا تعلق سرگودھا سے ہے جبکہ دوسری کا تعلق ضلع قصور سے ہے۔ پہلی |