بیوی سے اولاد نہیں ہوئی۔ بنا بریں دوسرا نکاح دوسال قبل کیا، اس کے بطن سے بیٹی عائشہ تولد ہوئی جو ان کی وفات کے وقت تین ماہ کی تھی۔ اللہ ربّ العزت صحیح معنوں میں اس کو والد کا قائم مقام بنائے۔ آمین! آپ کا ذاتی کوئی مکان نہیں، ہمیشہ کرایہ کے مکان میں رہے اور ذریعہ آمدن واجبی سا مشاہرہ تھا جس سے بمشکل گزارہ کرتے رہے۔وفات کے بعد بعض احباب کی مساعی سے پسماندگان کے لیے لاہور میں مکان خریدا گیا۔ مرحوم کم گو، ملنسار، بڑے خلیق، دینی علم میں پختہ کار اور حسن خلق کا عظیم مظہر تھے۔ دوستی کا دائرہ بہت وسیع اور بے مثال مہمان نواز تھے۔چھٹی کے ایام اکثر و بیشتر احباب کے ساتھ میل ملاقات میں گزارنا سعادت مندی سمجھتے تھے۔ اس غرض کے لئے دور دراز سفروں سے گریز نہ کرتے بلکہ بیرون ملک بھی بذریعہ فون وقتاً فوقتاً دوست احباب سے رابطہ رہتا، بطورِ مثال شیخ عبداللہ بن صالح عبید، ریاض؛ حافظ عبدالرؤف،شارجہ؛ ڈاکٹر عبدالقادر بن عبدالکریم اور ڈاکٹر قاری محمد انور، ریاض سے ان کے خصوصی روابط تھے۔ شیخ عبداللہ آج کل سعودی وزارتِ تعلیم کی طرف سے یمن کے دارالحکومت صنعا میں تدریسی خدمات کے لئے مقرر ہیں،یہاں بھی ان سے رابطہ رکھتے، کوئی دنیاوی مفاد پیش نظر نہیں تھا، محض رضاے الٰہی کے لئے یہ صعوبت برداشت کرتے اور اپنے اساتذہ سے جب کبھی کسی کا ذکر کرتے، نہایت مؤدبانہ الفاظ سے یاد کرتے۔ قولِ حق کی طرف فوراً رجوع فرماتے بلکہ ابلاغِ حق کے داعی و مبلغ بن کر سامنے آتے۔ یہ وہ صفاتِ حسنہ ہیں جو عام لوگوں سے ان کو ممتاز کرتی ہیں۔ربّ العٰلمین ان کی بشری لغزشوں سے درگزر فرما کر جنت الفردوس میں مقام عنایت فرمائے۔ آمین! امام بخاری رحمۃاللہ علیہ کے اس قول پر میں اس تذکرہ کو ختم کرتا ہوں جو اُنہوں نے اپنے شاگرد امام دارمیؒ کی وفات پر اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: إن عشت تفجع بالأحبۃ کلھم وبقاء نفسک لا أبًا لک أفجع ’’اگر توزندہ رہتا ہے تو اپنے سب پیاروں کے جانے کا غم سہتا ہے، افسوس کہ تیرا خود زندہ رہنا (ان کے جانے سے) زیادہ تکلیف دہ ہے۔‘‘ |