Maktaba Wahhabi

46 - 79
نے اُنہیں الہاماً یہ فرمایا: ﴿وَأَوْحَیْنَا إلٰی اُمِّ مُوْسٰی أَنْ أرْضِعِیْہِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَیْہِ فَأَلْقِیْہِ فِي الْیَمِّ وَلَا تَخَافِيْ وَلَا تَحْزَنِيْ، إنَّا رَآدُّوْہٗ إِلَیْکِ وَجَاعِلُوْہٗ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ﴾ (القصص:۷) ’’ہم نے اُمّ موسیٰ کو وحی کی کہ بچے کو دودھ پلاتی رہ، جب تجھے اس کی جان پر خوف لاحق ہو تو اسے سمندر میں ڈال دینا اور کسی خوف و غم میں مبتلا نہ ہونا۔ ہم اسے تیری طرف لوٹا دیں گے اور اسے رسول بنا دیں گے۔‘‘ قرآنِ کریم میں مذکور واقعاتِ الہام کی بنا پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ الہام کے قائل تھے، جیسا کہ ان کے مندرجہ ذیل اشعار سے واضح ہے : ہو بندۂ آزاد، اگر صاحب الہام ہے اس کی نگاہ فکروعمل کے لئے مہمیز اس کے نفس گرم کی تاثیر ہے ایسی ہوجاتی ہے خاکِ چمنساں شرر آمیز شاہین کی ادا ہوتی ہے بلبل میں نمودار کس درجہ بدل جاتے ہیں مرغان سحرخیز اس مردِ خود آگاہ و خدا مست کی صحبت دیتی ہے گداؤں کو شکوہِ جم و پرویز[1] ہاں البتہ وہ ایسے الہامِ محکوم سے خدا کی پناہ چاہتے ہیں جو غیروں کی غلامی میں جکڑ دے اور آزاد اقوام پر چیرہ دستیوں کے ساتھ چنگیزانہ آقائی مسلط کردے : محکوم کے الہام سے اللہ بچائے غارت گر اقوام ہے وہ صورتِ چنگیز[2] الہام تو رہا ایک طرف، اقبال تو ایسی نبوت کے بھی قائل نہیں جو مسلمانوں کو سلاطین کی غلامی و پرستاری میں مبتلا کر ڈالے : وہ نبوت ہے مسلماں کے لئے برگِ حشیش جس نبوت میں نہ ہو قوت وشوکت کا پیام[3] لیکن ’مفکر قرآن‘ صاحب اس معاملہ میں بھی مصورِ پاکستان سے اختلاف کرتے ہیں ، وہ الہام کے قائل نہیں ۔ ان کے نزدیک: ’’الہام کا تصور بے بنیاد ہے۔‘‘[4]
Flag Counter