اور عامل بھی تھے، لیکن ’مفکر ِقرآن‘ صاحب کے نزدیک اطاعت والدین کا تصور غیر قرآنی تصور ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں : 1. ’’اس (قرآن) نے ماں باپ کی اطاعت کو کہیں فرض قرار نہیں دیا۔ بلکہ کہا تو یہ کہ ان کے ساتھ حسن ِسلوک کرو۔‘‘[1] 2. ’’ ایک صحیح العقل نوجوان کے لئے ماں باپ کی اطاعت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، وہ ان سے مشورہ لے سکتا ہے، ان کے فیصلوں کا پابند نہیں ہوسکتا۔‘‘[2] جہاں تک مشورہ لینے کا تعلق ہے، اس میں والدین کی کیا تخصیص ہے، وہ تو زید، بکر،عمر ہر ایک سے لیا جاسکتا ہے، اور انسان کسی کے بھی فیصلوں کا پابند نہیں ہے۔ پھرآخر والدین ہی کے بارے میں ایسے تاکیدی احکام کیوں کہ اشکرلي ولوالدیک اور یہ کہ بالوالدین إحسانا اور پھر ان احکام کو قرآن میں عبادتِ خداوندی کے حکم کے ساتھ متصل اور مقرون کرکے بیان کیا گیا ہے۔ نیز کیا والدین کے ساتھ کوئی حسن ِسلوک ان کی نافرمانی کی صورت میں بھی ممکن ہے؟ اب کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کوئی ’صحیح العقل نوجوان‘ نہیں تھے؟ کیونکہ اُنہوں نے باپ کے سامنے سرتسلیم خم کردیا یا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ تھے تو ’صحیح العقل‘ لیکن ان کی اطاعت ِوالد کی یہ ’حرکت‘ قطعاً ’غیرقرآنی عمل ‘ ہے؟ امر واقعہ یہ ہے کہ اطاعت ِوالدین کا نظریہ خود قرآن میں موجود ہے۔ وہ ایک خاص صورتِ حال میں (جبکہ اُنہیں شرک یا مخالفت ِ حکم خدا پر اُکسایا جارہا ہو) والدین کی اطاعت سے منع کرتا ہے۔ خاص صورتِ حال میں ، اطاعت ِوالدین سے منع کرنا بجائے خود اس کی دلیل ہے کہ عام حالات میں اطاعت ِوالدین لازم ہے۔ چھٹا اختلاف بسلسلۂ ’الہام‘ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں الہام و القا کے قائل و معتقد تھے، کیونکہ قرآن میں دیگر واقعات کے علاوہ الہامِ خداوندی کا یہ واقعہ موجود ہے جس میں ولادتِ موسوی پر جب ان کی والدہ کو فرعو ن کی قتل ابناے بنی اسرائیل کی پالیسی کے تحت خوف لاحق ہوا تو اللہ تعالیٰ |