پھر بیٹے کی ایسی بھرپور اطاعت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اُنہیں یوں خراجِ تحسین پیش فرماتے ہیں : یہ فیضانِ نظر تھا، یا کہ مکتب کی کرامت تھی سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی[1] ایک اور مقام پر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اس قربانی کے ساتھ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی قربانی کا یوں ذکر فرماتے ہیں : غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم نہایت اس کی حسین رضی اللہ عنہ ، ابتدا ہے اسماعیل علیہ السلام[2] خو د علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا دامن ِکردار اطاعت ِوالدین کی خوبی سے مزین تھا، اور مندرجہ ذیل واقعہ کو خودپرویز صاحب نے تائیداً بیان کیا ہے : ’’علامہ کی مثنوی ’اسرارِ خودی‘ کے خلاف جب یہ ہنگامہ گرم تھا، اُنہی دِنوں علامہ سیالکوٹ تشریف لائے، اور باپ بیٹے جب یکجا بیٹھے تو مثنوی پر حلقۂ صوفیا کی برہمی کا ذکر آیا۔ علامہ نے فرمایا: ’’میں نے حافظ کی ذات اور شخصیت پراعتراض نہیں کیا، میں نے صرف ایک اُصول کی تشریح کی ہے، اس کا افسوس ہے کہ مسلمانانِ وطن پر عجمی اثرات اس قدر غالب آچکے ہیں کہ وہ زہر کو آب ِ حیات سمجھتے ہیں ۔‘‘ علامہ کے والد بزرگوار نے بڑی مرنجاں مرنج طبیعت پائی تھی۔ اُنہوں نے اس پرفرمایا کہ اگر حافظ کے عقیدت مندوں کے جذبات کو ٹھیس لگائے بغیر اُصول کی تشریح کردی جاتی تو اچھا تھا۔ علامہ نے اس کے جواب میں کہا کہ یہ’حافظ پرستی‘ بھی تو ’بت پرستی‘ سے کم نہیں ۔ اس پر ان کے والد نے فرمایاکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بتوں کو بھی بُرا کہنے سے منع فرمایا ہے۔ اس لئے مثنوی کے وہ اشعار جن پر عقیدت مندانِ حافظ کو اعتراض ہے، آئندہ ایڈیشن میں ان کا حذف کردینا ہی مناسب ہوگا۔ علامہ نے اس پر زبان سے کچھ نہیں کہا، بس مسکرا کر رہ گئے اور اپنے والد محترم سے بحث کرنے کی بجائے، ان کے حضور سرتسلیم خم کردیا (اور ان اشعار کو حذف کردیا)۔ [3] حیات ِاقبال رحمۃ اللہ علیہ کا یہ واقعہ اس حقیقت پر شاہد ہے کہ وہ اطاعت ِوالدین کے قولاً اور عملاً قائل |