اپنے خاوند کی مرضی میں گم ہوجائے، اس میں شبہ نہیں کہ جذباتی طور پر یہ چیز بڑی خوش آیند معلوم ہوتی ہے، لیکن قرآن کی یہ تعلیم نہیں کہ بیوی کی اپنی مرضی کچھ نہ ہو، وہ ہر بات میں میاں کی مرضی کے تابع چلے، میاں اور بیوی دونوں کو قوانین خداوندی کے تابع چلنا چاہئے۔‘‘[1] قرآنِ کریم اور علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف ’مفکر ِقرآن‘ کا یہ استدلال ایک ملمع ساز منطق (Fallacious Logic) ہے، اور یہ کہتے ہوئے کہ’ ’میاں بیوی، دونوں کو قوانین خداوندی کے تابع چلنا چاہئے‘‘ … ’تہذیب کا یہ فرزند‘ یہ بھول جاتا ہے کہ خود خدا ہی اپنا یہ قانون بیان کررہا ہے کہ بیویاں (نشوز کی روش چھوڑ کر) شوہروں کی اطاعت اختیار کریں : ﴿فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلًا﴾ (سورۃ النساء :۲۴) ’’اگر وہ تمہاری اطاعت کریں ، تو اُن پر دست درازی کی راہیں نہ تلاش کرو۔‘‘ پانچواں اختلاف بسلسلۂ اطاعت ِ والدین علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ماں باپ کے احترام و اطاعت کو تعلیمِ دین سمجھتے تھے، وہ احترامِ ماں کے سلسلہ میں فرماتے ہیں : گفت آں مقصود حرفِ کُن فکاں زیر پائے اُمہات آمد جناں[2] ’’ وہ ذات جو حرفِ کُن فکان کے مقصود ہیں ، اُنہوں نے فرمایا ہے کہ جنت ماں کے پاؤں کے نیچے ہے۔‘‘[3] رہا والد کا احترام اور اس کی اطاعت تو علامہ رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے ہمیشہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وہ واقعہ رہا، جس میں وہ اپنے فرزند ِارجمند حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے یہ فرماتے ہیں کہ ’’بیٹا! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے (اللہ کی راہ میں ) قربان کررہا ہوں ، تیری کیا رائے ہے؟‘‘ بیٹا یہ سن کر سرتسلیم خم کرتے ہوئے عرض گزار ہے کہ ’’ابا جان! جس بات کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے، اسے کرگزریئے، آپ ان شاء اللہ مجھے صابر پائیں گے۔‘‘ اولاد کی ایسی دینی تربیت اور |