نوری و ہم آتشی فرما نبرش گم رضایش در رضاے شوہرش[1] ’’نوری و آتشی سب آپ رضی اللہ عنہ کے فرمانبردارتھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی رضا کو شو ہر کی رضا میں گم کردیا تھا۔‘‘[2] لیکن چونکہ ’مفکر قرآن‘ صاحب تہذیب ِ مغرب کی زلف ِ گرہ گیر کے اسیر تھے، اس لئے قرآن اور اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا یہ نظریہ ان کے لئے قابل قبول نہ تھا، بلکہ وہ اس کے برعکس ابتداء ً مرد وزن کو عائلی زندگی میں مساوی المرتبہ قرا ر دیا کرتے تھے، لیکن پھر آخر کار وہ مغرب سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر’روشن خیالی‘ کا دم بھرتے ہوئے یہ کہا کرتے تھے کہ مرتبہ و مقام کے اعتبار سے خواتین کو مردوں پر فوقیت حاصل ہے، اور’دلیل ‘ یہ پیش کیا کرتے تھے: ’’چونکہ ازدواجی میزان میں عورت کا پلڑہ بمقابلہ مرد کے جھکتا ہے (یعنی عورت کی قدروقیمت مرد کے مقابلہ میں زیادہ ہے) اسی لئے مرد کے لئے ضروری قرار دیا گیا کہ وہ کچھ تحفہ عورت کو دے۔‘‘[3] ہمارے ’مفکر قرآن‘ اپنی تضاد گوئی میں بھی ایک بے مثال ولاجواب شخصیت تھے یہاں تو اُنہوں نے عورتوں کے مقام و مرتبہ کو مردوں کے مقابلہ میں بلندتر قرار دیا ہے، لیکن اپنے اسی مقالہ میں وہ ایک صفحہ پہلے دونوں اصناف بشر کو مساوی المرتبہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’نکاح سے مرد اور عورت دونو ں پریکساں فرائض عائد ہوتے ہیں ، سورۃ البقرۃ میں ہے: ﴿وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ قاعدے اور قانون کے مطابق، عورت کے بھی اتنے ہی حقوق ہیں جتنی اس کی ذمہ داریاں ہیں ۔‘‘[4] بہرحال اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور قرآن، دونوں ہی خواتین کی یہ خوبی سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے شوہروں کی فرمانبردار ہوں ، یہاں تک کہ ان کی پسند و ناپسند شوہروں کی پسند و ناپسند میں ڈھل جائے لیکن پرویز صاحب کے نزدیک یہ سراسر غیر قرآنی تصور ہے۔ وہ اس کی تردید میں لکھتے ہیں : ’’دوسرے مصرعہ میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ بیوی کی بلند ترین سیرت یہ ہے کہ اس کی مرضی |