Maktaba Wahhabi

85 - 86
بات تو یہ ثابت ہوتی ہے کہ کافر اور عورت کی مردوں کے لئے امامت کا حکم ایک ہی ہے۔ اس عبارت سے عورت کی امامت کا جواز نکالنا ایسے ہی ہے جیسے مسلمانوں پر کافر کی امامت کا جواز نکالا جائے۔ ان فقہاکے موقف کوسمجھنے کے لئے ’مغنی‘ کے مسئلہ نمبر 254 کا مکمل مطالعہ مفید ہوگا۔٭ ٭ جہاں تک ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ کاتعلق ہے تو کتب ِفقہ میں ان کا یہ موقف کہیں دستیاب نہیں ہوسکا۔البتہ ان سے ایک اور موقف ضرور منسوب کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ مسالک ِاربعہ کے برعکس ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک عورت قاضی بن سکتی ہے لیکن ابن جریر سے اس موقف کی نسبت بھی ایک اختلافی مسئلہ ہے۔اکثر علما نے ابن جریر کی طرف اس موقف کی نسبت سے انکار کیا ہے ۔ قاضی ابو بکر ابن العربی المالکی کہتے ہیں : ونقل عن محمد بن جرير الطبري أنه يجوز أن تكون المرأة قاضية ولم يصح ذلك عنه (احکام القرآن: 3/1444 اور جامع الاحکام از قرطبی: 13/183) ”یہ بات ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی منسو ب کی گئی ہے کہ عورت قاضی بن سکتی ہے حالانکہ یہ نسبت درست نہیں ہے۔“ آگے لکھتے ہیں کہ ممکن ہے کہ اس سے عام قاضی بننے کی بجائے یہ مراد ہو کہ عورتوں سے مخصوص کسی مسئلہ میں اس کو وقتی طور پر یہ ذمہ داری سونپ دی جائے۔ ابن جریر طبری کا یہ موقف کتب ِفقہ میں صراحت کے ساتھ تو کہیں موجود نہیں اور جہاں ان سے یہ نسبت کی گئی ہے ، وہاں بھی مشکوک لفظ یعنی قِيل بولا گیا ہے۔ لہٰذا ممکن ہے کہ اسی مسئلہ پر قیاس کرتے ہوئے ان کی طرف مردوں کی امامت کا قول بھی منسوب کردیا گیا ہو۔ لیکن جب ان کی طرف قاضی بنانے کی نسبت بھی درست نہیں تو امامت کا قول کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے۔شیخ محمد امین شنقیطی لکھتے ہیں : لعل كل ما نُسب إلى هوٴلاء الأعلام لم تصح نسبته إليهم لرسوخ أقدام القوم وأن لهم اليد الطولىٰ في العلم وإلا فكيف يصح أن يقول مثل هوٴلاء: بجواز تولية المرأة في الإسلام والرسول يقول: لن يفلح قوم ولَّو أمرهم امرأة (مواہب الجليل من ائمة الخليل بحوالہ ولاية المرأة: 220) ”شاید کہ ان نامور ائمہ کی طرف جو کچھ منسوب کیا گیا ہو، وہ فی الواقع درست نہ ہو کیونکہ یہ مسلمانوں کے راسخ العلم امام ہیں اور شریعت میں ان کی مہارت معروف ہے۔ وگرنہ کیونکر ممکن
Flag Counter